یوم سیاح کشمیر میں پہلے بھارتی فوج اتری یا پٹھان مجاہدین ؟

جموں و کشمیر کی تاریخ میں اکتوبر کو بہت اہمیت ہے۔ اسی ماہ ریاست کے کچھ حصوں کے عوام کو سو برسوں کی بدترین غلامی اور اذیت ناک زندگی سے نجات ملی۔۔اور کچھ حصے غلامی سے نکل کر بدترین غلامی میں چلا گیے، اسی ماہ کشمیری کی تاریخ کا سب سے بڑا تنازع کھڑا ہوا۔ اسی ماہ کشمیری نہ صرف جغرافیائی لحاظ سے بلکہ سوچوں، خیالوں اور نظریات میں بھی تقسیم ہوئے۔کشمیری اسی ماہ کی 27 تاریخ کو یوم سیاح مناتے ہیں۔ اسی تناظر میں قوم پرست کہلانے والے کچھ عناصر نے موقف اختیار کیا کہ آزاد کشمیر کے مجاہدین ریاست کے بٹ وارے کے ذمہ دار ہیں۔ 22 اکتوبر کو قبائلی پھٹان سری نگر کے بغل میں پہنچ کر بجلی بند نہ کرتے تو بھارت کو کشمیر پر قبضہ کا جواز نہ ملتا۔قوم پرست دوستوں میں سے بعض افراد مہاراجہ ہری سنگھ کی محبت میں انتہائ پر بھی چلا جاتے ہیں اور اس ظالم و بدکردار شخص کو روحانی باپ کے درجے پر کھڑا کرتے ہیں۔ جب کے تاریخ ان بدمعاشوں کے سیاح کارناموں عیاشیوں اور بدکرداریوں سے بھری پڑی ہے۔تنازعہ کشمیر سے متعلق سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ 27 اکتوبر کو بھارتی فورسز کا سری نگر میں اترنے کا جواز 22 اکتوبر کو پٹھان مجاہدین کا کشمیر میں داخلہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی فوج ، پٹیالہ فورس کی صورت میں 17 اکتوبر 1947 تک جموں و کشمیر کے مختلف حصوں میں پوزیشن سھنبال چکی تھی۔ یعنی قبائلیوں کے آنے سے پانچ دن قبل۔ کنٹرول سھنبالنے کے دس دن بعد 27 اکتوبر کو بھارتی فوج اتارنے تو محض بہانہ کیا گیا تاکہ کشمیر پر قبضہ کا جواز پیدا ہو۔ میجر خورشید انور جو اس محاذ کی کمان کرتا رہا، اس حقیقت کو سب سے پہلے منظر عام پر لایا۔ اس نے اپنی یاداشتوں میں لکھا کہ ان کے جوانوں کا سامنا "پٹیالہ ریاست کی پہلی سکھ رجمنٹ” سے ہوا۔ دراصل ہری سنکھ نے جموں و کشمیر کے مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کا منصوبہ بنا رکھا تھا تاکہ مسلمان اکثریت کو قتل کر کے اقلیت میں تبدیل کر دیا جائے۔ محمود ہاشمی نے اپنے طویل رپوتاز "کشمیر اداس ہے” میں اس کی خوب منظر کشی کی ہے۔۔ ڈوگرہ کی نیت کی عملی جھلک 5 اور 6 نومبر 1947 میں دیکھنے میں آئی۔ اس خوف ناک واقعہ کو ہم "یوم شہدائ جموں ” کے نام سے یاد کرتے ہیں جہاں صرف دو یوم میں تین لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو مار مار کر کٹھوعہ کے جنگلات اور ندی نالے بھر دئے گئے۔ یہ کارروائی پونچھ سے شروع ہونا تھی اور سری نگر میں اس کا ایکشن ری پلے ہوتا۔ مگر مجاہدین نے ڈوگرہ کو یہ مہلت ہی نہ دی۔ پٹیالہ فوج کے دستے اکتوبر کے پہلے دو ہفتوں میں ریاست جموں و کشمیر میں داخل ہو چکے تھے جن میں آر ایس ایس کے غنڈے اور مرھٹے بھی شامل تھے۔17 اکتوبر تک ریاست کے تین بڑے شہروں اور ملحقہ قصبوں سری نگر ، جموں اور اوڑی میں بھارتی فوج پوزیشن سھنبال چکی تھی۔ میجر خورشید انور کے بیان کی تصدیق سب سے پہلے بھارتی فوج کے لیفٹیننٹ جنرل لیونل پروٹپ سین نے کی جو پہلی پاک بھارت جنگ میں بھارتی کمانڈر کے طور پر حصہ لے چکا۔ ایل پی سین نے لکھا۔ "میں کارروائی کے لیے تعینات ماؤنٹین آرٹلری کی بیٹری دیکھ کر حیران رہ گیا۔ جب میں ان کے برابر کھڑے انٹیلی جنس افسر کو دیکھ رہا تھا ، بیٹری کمانڈر مجھ سے ملنے کے لیے آگے آیا۔ ہماری گفتگو کے نتیجے میں ، مجھے معلوم ہوا کہ یہ پٹیالہ ماؤنٹین بیٹری تھی جسے جموں و کشمیر کے مہاراجہ کی درخواست کے جواب میں وادی میں بھیجا گیا تھا اور وہ گزشتہ دس دن سے کشمیر میں تھا۔
(کشمیر محاذ آرائی 1947۔48 صفحہ نمبر64۔۔ از لیفٹیننٹ جنرل ایل،پی، سین) بھارتی فوج کے ایک اور افسر، میجر جنرل ڈی کے پالیت ، جو جنگی تجزیہ نگار اور مصنف ہے، نے لکھا کہ” فوجی کمک جو جموں و کشمیر کی ریاستی افواج نے بدآمنی پھیلنے سے پہلے (22 اکتوبر ، 1947) پٹیالہ ریاست سے حاصل کی تھی۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے پٹیالہ کے حکمران کو درخواست کی تھی جس میں ایک پیدل بٹالین کو جموں بھیجنے کے لیے کہا گیا تھا۔ یہ فوجی افرادی قوت ممکنہ طور پر اس مقامی گیریڑن کو تبدیل کرنے کے لیے مانگی گئی جو میرپور اور پونچھ کے علاقے تھی۔ جب کہ ایک ماؤنٹین بیٹری وادی کشمیر کے لیے بھیجی گئی (جموں و کشمیر اسلحہ: جے اینڈ کے رائفلز کی تاریخ ، صفحہ۔ 197۔ از۔۔میجر جنرل ڈی کے پالیت) اس موضوع پر انگریزی اور یورپین مورخین نے بھی روشنی ڈالی۔ مشہور مورخ الیسٹر لیمب نے مذکورہ بھارتی ذرائع کے حوالے سے اس موضوع کو تفصیل سے بیان کیا۔ وہ لکھتا ہے کہ ” اس اہم دور میں جموں و کشمیر کی حکومت کئی بھارتی ریاستوں کے حکمرانوں سے بھی رابطے میں تھی جو کہ بھارت میں اپنے الحاق کے باوجود کچھ حد تک آزاد پالیسیاں چلا رہے تھے۔ ان میں پٹیالہ کے سکھ مہاراجہ کی ایک مثال ہے۔ جس نے اکتوبر 1947 کے پہلے دو ہفتوں کے دوران۔ ریاست جموں و کشمیر میں اپنے ساتھی مہاراجہ کو پیادہ فوج کی ایک بٹالین اور اپنی ریاستی مسلح افواج کی طرف سے پہاڑی توپوں کی بیٹری( یعنی توپ خانہ کی یونٹ) فراہم کی… بیٹری سری نگر ائیر فیلڈ کی حفاظت کے لیے تھی جس نے کم از کم 17 اکتوبر سے پہلے وہاں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ پٹیالہ انفنٹری کو جموں میں مہاراجہ کے سرمائی دارالحکومت کی کمان کے لیے کمک کے طور پر تعینات کیا گیا تھا۔ . بھارتی فوج کی باضابطہ مداخلت کے تھوڑی دیر بعد پٹیالہ کے مہاراجہ یاویندرا سنگھ اپنے دستے کو ذاتی طور پر کمان کرنے کے لیے جموں آئے۔ اس وقت تک پٹیالہ ریاستی افواج بھارتی فوج کا حصہ بن چکی تھی۔ (واضح رہے کہ 5 مئی 1947 کو ہندوستان کے ساتھ ریاستوں کے الحاق کے قوائد کے مطابق (پٹیالہ اور ایسٹ پنجاب اسٹیٹس یونین کے حصے کے طور پر مدغم ہو چکی تھیں) اور یہ ریاستیں اور ان کے وسائل ہندوستانی یونین کی حکومت کے کنٹرول میں آ گئے تھے۔ اقتدار کی منتقلی کے بعد، پٹیالہ فوج کی کشمیر میں تعیناتی پر کئی سوالات اٹھتے ہیں جن کے جوابات ابھی تک نہیں ملے یا بھارت سے کسی نے مانگے نہیں۔ کم از کم یہ ممکن نہیں کہ بھارتی فوج کی کمان جو سینئر برطانوی کمانڈروں پر مشتمل تھی کو اطلاع دیے بغیر پٹیالہ فوج ریاست جموں و کشمیر تک پہنچی ہو (یقینا گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن کو آگاہ کیا گیا ہو گا)۔اگرچہ یہ بھی ممکن ہے کہ ہندوستانی قیادت کے کچھ اہم ممبران ، بشمول سردار ولبھ بھائی پٹیل اور بلدیو سنگھ ، اس پیش رفت سے واقف ہوئے ہوں۔ (کشمیر: ایک متنازعہ میراث 1846ـ1990 ، رکسفورڈ بکس ، 1991. صفحہ۔ 131۔۔از۔۔۔الیسٹر لیمب) ایک اور موقع پر، الیسٹر لیمب کچھ پٹیالہ میں شائع ہونے والے مختلف مواد کی بنیاد پر ، کہتا ہے کہ یہ سب کچھ جواہر لال نہرو کے کہنے پر ہوا تھا۔ جواہر لال نہرو کی طرف سے مداخلت مہاراجہ ، یاویندرا سنگھ کی ذاتی درخواست پر ہوئی ہے جو کشمیر کے مہاراجہ کے خط کے جواب میں ہر حالت میں اس کی مدد کرنے چاہتا تھا۔” (ایک المیہ کی پیدائش: کشمیر 1947 ، روکسفورڈ۔ کتابیں ، 1994 ، صفحہ۔ 71) ان پٹیالہ فوجیوں کی قانونی پوزیشن پر بحث کرتے ہوئے ، یہی مصنف مذید لکھتا ہے۔
” کشمیر میں پٹیالہ فوجیوں کی قانونی پوزیشن دلچسپ ہے۔ ایک ریاست کے طور پر جس نے ہندوستان میں شمولیت اختیار کر لی ہو ، پٹیالہ نے دفاع اور خارجہ تعلقات کے تمام اختیارات حکومت ہند کے حوالے کیے ہوئے تھے: یہ الحاق کی ایک معیاری شرط تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ اقتدار کی پٹیالہ سے انڈیا کو منقلی کے وقت ریاستی مسلح افواج کو ہندوستان کی مسلح افواج کی کمان میں دیا گیا تھا ، ہندوستانی سرحدوں سے باہر ان کی تعیناتی شک و شبہ سے خالی نہیں۔ اس بات میں کوئی ابہام نہیں کہ پٹیالہ فوج کا کشمیر میں موجود ہونا خارجہ پالیسی کا معاملہ ہے یہ صرف حکومت ہند ہی کا اختیار تھا جو اس نے استعمال کیا۔۔ ایسا لگتا ہے کہ یا تو پٹیالہ کے لوگ کشمیر میں پہلے سے موجود تھے جو کہ ہندوستانی آئین کی کھلی خلاف ورزی کر رہے تھے یا ان کی موجودگی کو نئی دہلی نے منظور کیا تھا۔ اگر پہلے سے موجود تھے تو کشمیر میں ان کی حیثیت کی تشریح یہ کی جا سکتی ہے کہ وہ پٹھان قبائلیوں کی طرح ہی تھی جن کو بعض لوگ حملہ آور کہتے ہیں۔ لیکن یہ حملہ مان بھی لیا جائے تو بعد کا ہے۔حکومت انڈیا قبائلی "مداخلت” سے پہلے ہی ریاست جموں و کشمیر میں براہ راست فوجی مداخلت کی سرپرستی کر رہی تھی ، اسی طرح ، ایک اور معروف تاریخ دان اور سیاسی تجزیہ نگار، رابرٹ جی ویرسنگ کہتا ہے ”اس میں کوئی شک نہیں کہ پٹیالہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق سے پہلے فوجی پیش رفت میں شامل تھا۔ یہ اقدام نئی دہلی کو کشمیر پر جارحانہ رویہ سے جوڑتا ہے ، بھارتی حکومت اگر اس کو قبول نہ بھی کرے ،کون یقین کرے گا کہ برصغیر کے اہم ترین لمحے میں پٹیالہ کے بھارت میں ضم ہونے کے بعد ان فوجیوں کو کشمیر بھیجنا، حکومت ہند کی مکمل معلومات ، منظوری اور تعاون کے بغیر ممکن ہو سکتا ہے۔( انڈیا پاکستان اور کشمیر تنازعہ ، صفحہ۔ 51۔ از۔۔ رابرٹ جی۔ویرسنگ) پٹیالہ رجمنٹ کے یہ سپاہی خاص طور پر جموں میں مسلم شہریوں کی نسل کشی میں ملوث تھے۔ اس سلسلے میں جسٹس محمد یوسف صراف لکھتے ہیں”قبائلیوں کے داخلے سے کچھ دن پہلے ، پٹیالہ کے مہاراجہ نے پٹیالہ اسٹیٹ فورسز کی ایک انفنٹری بٹالین اور ایک ماؤنٹین بیٹری بھیجی تھی ،پہلی والی ??کو جموں میں تعینات کیا گیا، جب کہ ماؤنٹین بیٹری نے بادامی باغ سری نگر میں پوزیشن سنبھالی۔( کشمیر آزادی کی جنگ۔ جلد II ، صفحہ۔ 195۔۔ از۔۔ یوسف صراف) پٹیالہ کے ان فوجیوں نے سرینگر کے ہوائی اڈے کو آگے بڑھنے والے قبائلیوں سے بچانے میں بھی بھارتی فوج کی مدد کی تھی۔ اس سلسلے میں ، کرسٹوفر سنڈن اپنی کتاب "انڈرسٹینڈنگ کشمیر اینڈ کشمیری” میں لکھتے ہیں۔
نئی دہلی نے 27 اکتوبر 1947 کو بھارتی فوج کو سری نگر روانہ کیا۔ کچھ غیر یقینی صورتحال تھی کہ کیا بھارتی فوج سری نگر میں اترسکے گی ۔
اور کیا وہ مد مقابل سے مقابلہ کر پائے گی۔ بھارت کا ابتدائی مقصد سرینگر کے ہوائی اڈے کو محفوظ بنانا اور موسم گرما کے دارالحکومت کو پختونوں سے بچانا تھا۔ اس نے دونوں مقاصد حاصل کیے ، پٹیالہ کی ایک چھوٹی بیٹری کی مدد سے۔ جو حیرت انگیز طور پر سری نگر ایئرپورٹ پر پہلے سے تعینات تھی۔ ایک ہندوستانی صحافی پریم شنکر جھا جس کے والد (چندر شیکھر جھا) نے اقوام متحدہ میں کشمیر پر بھارتی کیس کی نمائندگی کی تھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ پٹیالہ سے بھارتی فوجی کشمیر میں تعینات تھے۔ پریم شنکر جھا مسلم لیگ پر قبائلیوں کو جموں و کشمیر کے تنازع پر اکسانے کا الزام لگاتے ہوئے ، لکھتا ہے۔”یہ ایک حقیقت ہے کہ پٹیالہ کی فوجیں الحاق کے معائدے پر دستخط سے پہلے کشمیر میں موجود تھیں۔” ( کشمیر 1947: حریف ورڑن آف ہسٹری ، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس ، 1996. صفحہ۔ 25۔۔ از۔۔پریم شنکر جھا) اسی طرح وکٹوریہ شوفیلڈ بھی 22 اکتوبر سے پہلے ریاست میں پٹیالہ رجمنٹ کی موجودگی کی تصدیق کرتی ہے لیکن درست تاریخ کے بارے میں۔ نہیں بتایا کہ کب پٹیالہ ریاستی فوجیں آئیں ( کشمیر ان کنفلکٹ: انڈیا پاکستان اینڈ دی اینڈنگ وار ، صفحہ 52۔۔۔ وکٹوریہ شوفیلڈ) ان معلوماتی ثبوتوں کے بعد کوئی ابہام باقی نہیں رہ جاتا کہ ڈوگرہ ہری سنگھ کی نیت پہلے سے ہی بھارت میں شامل ہونے کی تھی لیکن اس سے قبل وہ کشمیر میں مسلم اکثریت کا قتل عام کرنے چاہتا تھا۔ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں ہی پٹیالہ کی فوجیں اور آر ایس ایس کے غنڈے اسی لیے طلب کئے گئے تھے جو اس سے قبل برصغیر کے دوسرے حصوں میں مسلمانوں کا بے رحمانہ قتل عام کا وسیع تجربہ رکتھے تھے لیکن ان کو جموں کے علاوہ مجاہدین نے دوسری کسی جگہ موقع ہی نہیں دیا۔ اگر ان کو موقع مل جاتا تو وادی کشمیر اور وادی پیر پنجال میں دس لاکھ سے زائد مسلمان قتل ہوتے۔۔۔