فرعون کی لاش کو کیوں باقی رکھا گیا؟

قرانِ کریم کی سورہ یونس میں غرقِ فرعون کے قصہ میں اللہ نے فر مایاہے کہ ”بوقتِ غرق وہ کہنے لگا کہ میں ایمان لایاکہ اس کے سوا کوئی معبودنہیں جس پربنی اسرائیل ایمان لائے،اورمیں مسلمان ہوں۔(اسے کہاگیا)کہ اب؟اس سے پہلے توتونافرمان رہااورفسادی تھا۔آج ہم تیری لاش کوبچالیں گے تاکہ تواپنے بعدوالوں کے لیے نشانی بن جائے،اور بے شک لوگ ہماری نشانیوں سے ضرورغافل ہیں”اس قصے کی عالمانا تفاسیرتوساری دنیا میں تاریخ وصحیح واقعات کے ساتھ موجود ہیں،لیکن اس میں ایک راز جو پوشیدہ ہے کہ اللہ نے فرعون سے بڑے اور شدیدکفار بادشاہوں میں سے کسی کی لاش کو عبرت حاصل کرنے کے لیے کیوں باقی نہیں رکھا؟ اوراس ایک فرد کی لاش ہی کواپنی نشانی کیوں بنایا؟۔ میں نے اپنی زندگی میں اپنے شعور سے اور اپنے علم وسمع وبصر سے جہاں تک اپنے زمانے کو دیکھا،تومجھے ہر کسی میں فرعون کی روح دکھائی دی۔تو مرشدِ رومی کا وہ قول بھی سامنے آگیا کہ ”نفسِ ما کمتر ازفرعون نیست۔ لیک اورا عون است مارا عون نیست”کہ ہمارا نفس فرعون سے کم نہیں، ہاں اس کے پاس طاقت تھی ہمارے پاس طاقت نہیں۔اور بالخصوص پاکستان کے اندر ہر صاحبِِ طاقت، اقتدار،اور ملازمِ سرکار میں فرعونی روح تو ایسے موجزن ہے جیسے نیل ندی کا پانی بہہ رہا ہے، اگرخدا نخواستہ میں ہندو مذہب پریقین ر کھتا، تو یہ کہتا کہ فرعونی آوا گون ہے، کہ فرعون کی روح باربارجنم لے رہی ہے۔تواللہ کا ایک کلیہ ہے کہ جس چیز کے اثرات ہوں اس چیز کا وجود کہیں نہ کہیں ضرور ہوتا ہے، یعنی عالمِ دنیامیں ایسی کوئی چیزبھی نہیں جس کا وجود نہ ہو،اوراس کے اثرات ظاہر ہورے ہوں،اسی لیے اللہ نے شیطان کو تاروزِ قیامت کے لیے زندگی اور وجود دے دیا، کہ وہ اپنے اثرات کو عالمِ گیتی میں جاری رکھ سکے،اورشیطان نے جن ابدان میں زیادہ حلول کیا، ان میں سے فرعون وہ واحد شخص ہے، جس نے خالصتاً شیطانی انداز سے انسانوں ہی کونہیں بلکہ انسانوں کے خدا کو بھی دھوکا دینے کی کوشش کی،کہتے ہیں کہ فرعون نے اپنے محل کے اوپر بسم اللہ لکھی ہوئی تھی، قران نے اسی لیے اسے بیت العزت کہا ہے، اس کے علاوہ فرعون رات کو الٹا لٹک کر بارگاہِ ایزدی میں آہ وزاری کرتا کہ اے اللہ تو وحدہ لاشریک ہے، میں بھی تجھے ہی مانتا ہوں، لیکن یہ صرف انسانوں کودھوکا دینے کے لیے میں اپنے آپ کو رب کہلارہا ہوں، یعنی ریاست کی رٹ قائم رکھنے کے لیے،شایداسی لیے اللہ نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ اس سے نرمی سے بات کرنا کہ شایدوہ سیدھی راہ پر آجائے۔ آج بھی ہر صاحب اختیار واقتدارہاتھوں میں تسبیح لیے، یا جیب میں ٹوپی رکھے ہوتا ہے،اور لازماًاللہ کی عبادت کررہا ہوتا ہے،لیکن اللہ کی مخلوق پراللہ کے قوانین نہیں اپنے قوانین واختیارات کے تحت حکمرانی کررہا ہوتا ہے۔ البتہ وہ موسیٰ نبی ۖ اللہ کے جلال کا مظہر اورکلیم اللہ،کہ جو اللہ سے بات کھلے عام کرتا ہواسے فرعون سے نرمی؟،ایک بار فرمایا ہم اللہ کے بھیجے ہوے ہیں، تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے،اوران پر ظلم نہ کر،تواس نے کہا ہم آپ کو جانتے ہیں، آپ کی پرورش کاہمارااحسان ہے آپ پر،اور آپ نے جوکیا ہوا ہے؟ یعنی ایک بندہ قتل کیا ہواہے۔یعنی جس طرح آج بھی پاکستانی ظالم بیوروکریسی اور مقتدران،جب کوئی انہیں حق بات کہے تووہ کہتے ہیں،کہ تم نے فلاں کام میں کرپشن کی تھی، تمہارافلاں معاملہ اس ملک کے قوانین کے خلاف تھا، تمہارے رابطے فلاں ملک سے ہیں، اوراس طر ح حق بیان کرنے والوں یا حق مانگنے والوں کو قانونی چکروں میں پھنسا کر اپنے راستے سے ہٹادیتے ہیں۔تو موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ تو جو تھا، وہ اس وقت کا معاملہ تھا، اللہ نے اب مجھے یہ معاملہ سپرد کیا ہے،لہذااب اس پر بات کروتو اس نے اپنے وزیروں سے کہا یہ کوئی جادو گر ہیں،اوریہ چاہتے ہیں کہ یہ ہمیں ہمارے گھروں سے نکال دیں، توانہوں نے کہاتوپھر سب جادوگروں کو بلاواوران میں مقابلہ کراؤ، یعنی عوام کو قابورکھنے کے لیے شعبدے اور میلے اور ٹی وی ٹاکس بھی فرعونی کام ہے، اب جو جادوگر آئے تو وہ معجزہ اور جادومیں فرق سمجھتے تھے، انہوں نے جب اپنے جادوکے مقابلے میں اصل معجزہ دیکھا تو وہ سجدے میں گر گئے اور کہنے لگے کہ ہم موسیٰ اورہارون کے رب پرایمان لائے،اب فرعونی ایجنسیاں کہنے لگیں، یہ تو ان سب کا استاد ہے،اوریہ سارے مل کرہمیں بے وقوف بنارہے ہیں،توپھروہ موسیٰ نبی ۖ جس کو نرمی سے پیش آنے کا فرمان ہوا تھا،وہ اپنے جلال میں آگئے، میاں محمدبخش رحمة اللہ علیہ نے کہا ہے،”نیل ندی فرعون نہ کھادانہ قارون زمیناں۔ موسیٰ دی دعائے کیتا غرق دوہاں بے دیناں”لہذآج بھی فرعونیت کا آخری علاج قوتِ حق ہے، اوردعا بھی ایک قوت ہے، لیکن ایمان کے بعد اورایمان ایک عمل ہے،جوانسان کے افعال سے ظاہر ہوتا ہے، لہذاجس طرح فرعون کی لاش اپنی فرعونیت کے اثرات کے لیے باقی رہنا ضروری ہے، اسی طرح اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کے بدن کو بھی زمین پر کھاناحرام کردیا ہوا ہے،اسی لیے ایک مقولہ ہے کہ ہرفرعونے را موسیٰ، یعنی ہرفرعون کے لیے کسی نہ کسی کو موسیٰ بنایاجاتا ہے،لہذاہماری پاکستان کے فرعونی نظام کے معاونین سے گذارش ہے کہ وہ اللہ کے نظام کے تحت آجائیں اس وقت کا انتظار نہ کرہیں کہ کوئی موسیٰ بن کر سب کو ڈبودے وماعلی الاالبلاغ۔