اسرائیل اور فلسطین (قسط نمبر4)

موجودہ اسرائیل اور اس کے غیرقانونی طور پر قبضہ کیے گئے علاقے کی (جن میں اردن کے بعض علاقے بھی شامل ہیں) کل آبادی تقریباً 2 کروڑ 44 لاکھ ہے۔مسلمانوں کی آبادی لگ بھگ ایک کروڑ 12 لاکھ سے متجاوز جبکہ یہودی اکثریت والے علاقوں کی آبادی 85 لاکھ 47 ہزار کے قریب ہے اور اس میں بھی 82 فیصد یہودی اور 18 فیصد مسلمان شامل ہیں۔اسرائیل کی سرکاری زبان عبرانی ہے جس کا شمار دنیا کی قدیم ترین زبانوں میں ہوتا ہے۔ فلسطین کے مقدس شہر کو عبرانی زبان میں ‘یروشلم’ اور عربی میں ‘القدس’ کے نام سیجانا جاتا ہے۔ اس تاریخی شہر کو مسلمان، یہودی اور عیسائی، تینوں ہی مقدس سمجھتے ہیں۔ یوں یہ شہر تینوں الہامی (ابراہیمی) مذاہب کی جائے پیدائش ہونے کی وجہ سے انتہائی تقدس کا حامل ہے۔یہاں ایک مقام ”قبة الصخرہ” ہے، گنبدِ صخرہ اسی کو کہتے ہیں۔ یہودیوں اور مسیحیوں کیلیے یہ ”ڈوم آف راک” ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ پیغمبرِ اسلامۖ سفرِمعراج پر یہیں سے تشریف لے کر گئے تھے۔ اسی مقام پر مسجدِ اقصیٰ واقع ہے۔ ابتدائے اسلام میں یہی مسجد مسلمانوں کا قبلہ رہی، اسی لیے مسلمان مسجد اقصی کو قبلہ اول بھی کہتے ہیں۔اسرائیل نے ایک بار پھر غزہ سے داغے جانے والے راکٹوں کا بہانہ بنا کر مظلوم فلسطینیوں کو آگ اور خون میں نہلانا شروع کردیا ہے۔ بظاہر اسرائیل اور حماس کی لڑائی نظر آنے والے اس قصے کی اصل کہانی کیا ہے، یہ مشہور مصنف رابرٹ فسک نے اپنی ایک حالیہ تحریر میں بیان کی ہے، اگرچہ اسرائیل ابھی اسے دنیا سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کررہا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور بالخصوص فلسطین اور اسرائیل کی تاریخ اور سیاست کے ماہرین نے اسرائیل کے اس خوفناک منصوبے سے پردہ اٹھادیا ہے جس کے مطابق یہ یہودی ملک فلسطین کو چاروں طرف سے گھیر کر باقی عرب ممالک اور دنیا سے اس کا رابطہ ہمیشہ کیلئے کاٹنے کی تیاری کرچکا ہے اور اس کے نتیجے میں ایک خود مختار فلسطینی ریاست کا باب ہمیشہ کیلئے بند ہوجائے گا۔ فلسطینیوں کی زمین پر قبضے کی اسرائیلی کارروائی 72 سال سے زائد عرصے سے جاری ہے۔ کبھی آپ نے سوچا کہ اسرائیلی ظلم کا نشانہ بننے والے چھوٹے سے علاقے غزہ میں 15 لاکھ فلسطینی کیسے جمع ہوگئے؟ دراصل یہ فلسطینی کبھی اس جگہ آباد تھے جہاں آج اسرائیل ہے۔ یہ اس جگہ آباد تھے جہاں سے آج اسرائیل ان پر میزائل برسارہا ہے۔ 1948ء میں فلسطینی عرب حج (HUJ) نامی جگہ پر آباد تھے جہاں اسرائیلی فوجوں نے قبضہ کرکے انہیں مغرب میں واقع غزہ کے علاقہ کی طرف دھکیل دیا اور مقبوضہ جگہ کو نیا نام سیدیرت (Sederot)دے دیا۔ وہ دن اور آج کا دن، فلسطینیوں کے آبائو اجداد کی زمین اسرائیلیوں کے قبضے میں ہے اور وہ غزہ میں پناہ گزینوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں خود اسرائیل کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈن بن گورین نے فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرکے غزہ میں دھکیل دئیے جانے کو غیر منصفانہ عمل قرار دیا۔ لیکن اسرائیل نے اس ظلم کو کافی نہیں سمجھا اور مسلسل اس کوشش میں رہا کہ سارے فلسطین پر قبضہ کیا جائے اور اب بالآخراس نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ فلسطین کی مشرقی سرحد پر واقع علاقوں پر قبضہ کرلیا جائے۔ یہ علاقے دریائے اردن کے کنارے پر واقع ہیں۔ اس قبضہ کے بعد فلسطین کا رابطہ مصر، اردن، لبنان اور شام سے کٹ جائے گا اور یہ چاروں طرف سے اسرائیلی قبضے میں آجائے گا۔یہاں پر یقینا ایک سوال ضرور ہے اور لمحہ فکریہ ان سب قوتوں اور عناصر کے لئے ہے کہ جو ماضی سے اب تک فلسطین کے مسئلہ کا حل امریکی فارمولہ کے مطابق دو ریاستی حل میں سمجھ رہے تھے۔ یعنی وہ حکومتیں اور ادارے جو فلسطین کے لئے امریکی فارمولہ کے مطابق کہا کرتے ہیں کہ سنہ1967ء کی سرحدوں تک اسرائیل واپس ہو جائے اور فلسطین کی آزاد ریاست قائم ہو جائے۔ ایسے تمام عناصر اور حکومتوں کے لئے لمحہ فکر ہے کہ اسرائیل اور امریکہ اس طرح کے کسی منصوبہ کو مانتے ہی نہیں ہیں بس یہ تو مسلم دنیا اور فلسطین کی نام نہاد حامیوں کو ایک لالی پاپ دیا گیا تھا جسے آج تک ہماری مسلم حکومتیں لئے گھوم رہی ہیں۔