تصادم کی بجائے مذاکرات!

عوام کی جان ومال کا تحفظ ریاست کی اولین ذمہ داری ہے اور ریاست اپنی ذمہ داری ہر صورت نبھانے کی پوری کوشش بھی کرتی ہے ،مگر کبھی کبھار سیاسی وغیر سیاسی احتجاج حکومت کو ایسی صورت حال سے دوچار کردیتے ہیںکہ حکومت فوری طور پرطے نہیں کر پاتی کہ سختی سے نمٹا جائے یا افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا جائے،حکومت آجکل بھی کالعدم تنظیم کی جانب سے ہونیوالا احتجاج کے سبب فیصلہ سازی میں مشکلات کا شکار نظر آتی ہے ، اس حتجاج کے نتیجہ میں ہونیوالے تصادم میں چار پولیس اہلکار جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوچکے ہیں ،جبکہ متذکرہ تنظیم کے کارکنوں کی ہلاکتوں کی خبریں بھی زیرِگردش ہیں،ملک کے مختلف شہر میں ہنگامے’ راستے بند اور پولیس اور احتجاج کرنیوالوں کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں،اس صورت حال میںایک طرف وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ متذکرہ تنظیم کی کوئی حیثیت نہیں ،جبکہ دوسری جانب اسی کالعدم تنظیم سے مذاکرات کا ڈول بھی ڈالا جارہا ہے۔
بے شک اپنے جائز مطالبات منوانے کیلئے احتجاج کیا جا نا چاہئے ،لیکن احتجاج کی آڑ میں ریاست کی رٹ کو چیلنج اور بلیک میل کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے،اس وقت پنجاب بھرکے کئی شہروں میں سنگین صورتحال ہے، جی ٹی روڈ مکمل طور پر بند ہونے کے باعث لوگوں کو ایک سے دوسرے شہر’ حتیٰ کہ اپنے علاقے میں نقل و حرکت میں بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، صوبے بھر میں حالات کی سنگینی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے احتجاج کی آڑ میں پولیس والوں کو مارنے کو ظلم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ راستے بند کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا ،جبکہ وزیر اعظم کی صدارت میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ مظاہرین سے سختی سے نمٹاجائے گا، علاوہ ازیں پنجاب میں 60 روز کے لیے رینجرز بھی طلب کر لی گئی ہے ۔ہردورحکومت میں ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والوں سے نمٹنے میں کوتاہی کی گئی ہے ،اس کا خمیازہ سب نے بھگتا اور موجودہ حکومت بھی بھگت رہی ہے ، اگر پہلے ہی احتجاج پر ریاستی رٹ کو یقینی بنانے کا اقدام کر لیا جاتا تو آج حکومت کو رینجرز طلب کرنے اور کالعدم تنظیم سے عسکری تنظیم کی طرح نمٹنے کی ضروت نہیں تھی، اُس وقت بھی بظاہر افہام تفہیم کے نام پر مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا ، احتجاج کرنے والوں کے ساتھ معاہدہ بھی کیا گیا ،مگر اس پر عملدرآمد کرنے میں کوتاہی کی گئی ،اگر علامہ خادم رضوی کے ساتھ طے پانے والے حکومتی معاہدے پر عملدرآمد کر لیا جاتا تو آج خون خرابے تک نوبت نہیں آ نی تھی ۔ ہمارے ملک ومعاشرے میں جس قدر بھی خرابیاں پائی جاتی ہیں، ان میں سے زیادہ تر ریاست کی رٹ بروقت قائم نہ کرنے کا نتیجہ ہیں،ہمارے حکمرانوں کا وتیرہ بن چکا ہے کہ اس وقت حرکت میں آتے ہیں کہ جب پانی سر سے اونچا ہونے لگتا ہے،حکومت کوبہت سے بے گناہ لوگوں کے مرنے کے بعد ریاستی رٹ کا خیال آتاہے ،حکومت کو ریاست کی رٹ ضرورقائم کرنی چاہئے،مگر ریاست کی رٹ اس وقت ہی قائم ہو سکتی ہے کہ جب آئین اور قوانین کو بلا لحاظ بروئے کار لایا جائے، ماضی میں ایسا نہ کیا جا سکااور موجودہ حکومت نے بھی اہم مسئلے کے حل پر کوئی خاص توجہ نہیں دی ، اس کانتیجہ سب کے سامنے ہے ۔
اس ملک میں ایک کالعدم تنظیم حصول حق کیلئے سراپہ احتجاج ہے، آزادی اظہارے ٔرائے کا حق سب کو حاصل ہے ،لیکن آزادی رائے کی آڑ میں ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ انتظامی معاملات کو ہی سلب کر دیا جائے اور معاشرے کو جمود کا شکار بنا دیا جائے، ریاست کا ایسی کسی صورت حال کے خلاف متحرک ہونا بنتا ہے ، ریاست کسی کو بھی کسی عنوان سے اپنی عملداری میں مداخلت کی اجازت نہیں دے سکتی، اس اعتبار سے حکومت اور ریاست میں بسنے والے افرادکے تمام طبقوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے دائروں میں رہتے ہوئے ریاستی بقا کے تقاضوں کو ملحوظ رکھیںاور دبائو کے
ہتھکنڈوں سے اجتناب کریں ، ریاست کو ایسے عاجلانہ اقدامات پر مجبور نہ کریں کہ جو ملکی مفاد سے متصادم ہوں،لیکن حکومت کو سخت اقدامات کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
حکومت کا فرض ہے کہ عوام کی جان ومال کے تحفظ کے ساتھ ریاست کی رٹ کو بھی یقینی بنائے، اس حوالے سے حکومتی اقدامات محض موجودہ صورتحال کو ڈی فیوز کرنے تک محدود نہیں رہنے چاہئیں، بلکہ ایسے مستقل اقدامات اور انتظامات کرنے کی ضرورت ہے کہ آئندہ کوئی بھی ریاست کی رٹ کو چیلنج نہ کر سکے،تاہم اس وقت بگڑتے حالات کا تقا ہے کہ تصادم کی بجائے افہام تفہیم کا راستہ اختیار کیا جائے ،معاملات مزید الجھانے کی بجائے مذاکرات سے سلجھائے جائیں اور اس معاملے کو قومی اسمبلی میں لا کر کوئی ایسا راستہ نکالنے کی کوشش کی جائے کہ جس سے ریاست کی رٹ بھی قائم رہے اور تمام محبانِ رسولۖ کے تحفظات بھی دور ہو جائیں ۔
،یہ بظاہر مشکل نظر آتا ہے ،مگر ناممکن نہیں ہے۔

 

۔۔۔