ترکی،مغرب سفارتی کشیدگی،تلخ کلامی کے بعد مفاہمت کے اشارے(حصہ دوم)

حالیہ کشیدگی اس وقت عروج پر پہنچی جب عثمان کوالہ کی گرفتاری کے چار سال مکمل ہونے پر18 اکتوبر کو انقرہ کے امریکی سفارت خانے نے ایک بیان جاری کیا جس کا متن کچھ اس طرح ہے:
عثمان کوالہ کی نظربندی کو آج چار سال مکمل ہوگئے۔ ان کے مقدمے کی سماعت میں مسلسل تاخیر، مختلف مقدمات کو یکجا کرنے، اور بریت کے بعد نئے مقدمات کے اندراج سے ترک عدلیہ، جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور شفافیت کے احترام پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ چنانچہ کینیڈا، فرانس، فن لینڈ، ڈنمارک، جرمنی، نیدرلینڈ، نیوزی لینڈ، ناروے، سویڈن اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے سفارت خانوں کا خیال ہے کہ ترکی کی بین الاقوامی ذمہ داریوں اور قانون کے مطابق اس مقدمے کا منصفانہ اور فوری حل ضروری ہے۔ اس معاملے پر یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کے فیصلوں کے تناظر میں ہم ترکی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ عثمان کوالہ کی فوری رہائی کو یقینی بنائے۔
گویا یہ دس ملکوں کی مشترکہ قرارداد ہے۔ ترکی یورپی عدالت کا فیصلہ یہ کہہ کر پہلے ہی مسترد کرچکا ہے کہ انقرہ یورپی یونین کا رکن نہیں، اس لیے ترکی اس عدالت کے دائرئہ اختیار سے باہر ہے اور اس کے فیصلوں پر عمل درآمد کا پابند نہیں۔ دہرے معیار کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ امریکہ اسرائیل کے مبینہ جنگی جرائم کے خلاف عالمی عدالتِ انصاف (ICJ) کو تحقیقات کی اجازت دینے کو تیار نہیں، نہ وہ ICJ کا یہ حق تسلیم کرتا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج کی جانب سے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی تفتیش کی جائے، لیکن واشنگٹن کا اصرار ہے کہ ترکی یورپی عدالت کا فیصلہ من و عن تسلیم کرلے۔
صدر اردوان نے اس قرارداد کا جواب 23 اکتوبر کو شمال مغربی ترکی کے صدر مقام اسکشہر (Eskisehir)میں ایک بہت بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہو ئے دیا۔ ترک صدر نے کہاکہ ان غیر ملکی سفیروں کو یہ کہنے کی جرات کیسے ہوئی کہ آپ لوگ ترکی کو سبق سکھائیں گے! آپ خود کو سمجھتے کیا ہیں؟ سفیرو! ترکی کو سمجھو یا ترکی چھوڑ دو۔ عوام کے پرجوش نعروں میں انھوں نے کہا کہ میں نے اپنے وزیرِ خارجہ کو ضروری حکم دے دیا ہے کہ اب انھیں کیا کرنا ہے۔ ہم ان 10 سفیروں کو ناپسندیدہ شخص یعنی Persona non grataقرار دے رہے ہیں۔ ہم ان لوگوں کی اپنے ملک میں میزبانی نہیں کرسکتے۔
سفیروں کو ناپسندیدہ قرار دیے جانے کے اعلان پر امریکہ اور اور جرمنی کے سوا کسی مغربی ملک کا کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔ جرمن وزارتِ خارجہ نے کہا کہ ہم آپس میں گہری مشاورت کر رہے ہیں۔ ترک روزنامہ صباح کے مطابق امریکہ نے ترک حکومت کو یقین دلایا ہے کہ واشنگٹن عثمان کوالہ کے معاملے میں ترکی کی خودمختاری کا مکمل احترام کرتا ہے۔ پیر 25 اکتوبر کو انقرہ کے امریکی سفارت خانے نے اپنے ایک بیان میں اس عزم کا اعادہ کیا کہ ان کا ملک سفارتی تعلقات کے حوالے سے ویانا کنونشن کے ضابطہ 41کا پابند ہے۔ اس ضابطے کے تحت سفیر وں کے لیے میزبان ملک کے قوانین کا احترام اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت لازمی ہے۔ ترک وزارت خارجہ نے اب تک سفیر بدری کے باضابطہ احکامات جاری نہیں کیے۔
ترکی ایسے وقت میں یورپ اور امریکہ سے سفارتی تصادم کا خطرہ مول لے رہا ہے جب کورونا کی تباہ کاریوں سے اس کی معیشت شدید دبائو میں ہے۔ ایک سال کے دوران ترک لیرا کی قدر میں 20 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ امریکہ کی جانب سے تجارتی پابندیوں کی بنا پر اس کی برآمدات بھی متاثر ہیں۔ ترکی میں مہنگائی عروج پر ہے، جس کی وجہ سے عام لوگ بہت پریشان ہیں۔ ان دس ممالک سے ترک تجارت کا بڑا حصہ وابستہ ہے۔
سفارتی نامہ نگاروں کا خیال ہے کہ ان ممالک کو ترکی کی جانب سے ایسے سخت ردعمل کی توقع نہیں تھی۔ اب ایک طرف جواب الجواب میں مغرب کی جانب سے خاموشی ہے، تو دوسری طرف ترک حکومت نے بھی ان سفیروں کو ملک چھوڑنے کے سرکاری احکامات جاری نہیں کیے۔ جہاں تک اقتصادی مشکلات کا معاملہ ہے تو وہ یک طرفہ نہیں۔ ترکی یقینا سخت مشکل میں ہے لیکن یورپ کا حال بھی خاصا پتلا ہے، لہذا کشیدگی بڑھانا کسی کے مفاد میں نہیں
، اور خیال ہے کہ بات چیت کے ذریعے اس دلدل سے نکلنے کا باعزت راستہ تلاش کرلیا جائے گا۔اس ضمن میں امریکہ کا سجدئہ سہو خوش آئند ہے