مہنگائی نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
ورلڈ بینک نے اپنی پاکستان ڈویلپمنٹ رپورٹ کے ذریعے مہنگائی کی چکی میں پسنے والے پاکستانی عوام کو یہ خبر دی ہے کہ رواں برس مہنگائی کی شرح 8.9فی صد تک جا سکتی ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے قرض کی ایک اور قسط ملنے میں تاخیر سے پاکستان کی معیشت شدید مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ معاشی مشکلات کی وجہ سے ملکی اور علاقائی سیکورٹی خطرات بڑھ رہے ہیں۔ معاشی اصلاحات کا عمل تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف ادارہ شماریات نے کہا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح 14.31فی صد ہوگئی ہے۔ حالیہ ہفتے پچیس اشیا کی قیمتوں سمیت مہنگائی کی شرح میں مزید 1.23فی صد اضافہ ہوا۔ اس پر مستزاد یہ کہ حکومت نے نیپرا سے بجلی کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافے کی درخواست کی ہے۔ یوں بنیادی ٹیرف میں ایک روپے انتالیس پیسے فی یونٹ اضافہ کیا جائے گا۔ یہ سارے اقدامات عام آدمی کو معاشی طور پر مزید تباہ اور بدحال کرنے کا باعث بنیں گے۔ حکومت نے معاشی مشکلات کا حل نکالنے کے سعودی عرب سے کچھ رعایتیں حاصل کی ہیں مگر یوں لگتا ہے ان رعایتوں کے اثرات بھی عام آدمی تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ خدا جانے وہ کون خوش نصیب ہوں گے جو سعودی عرب کی مہربانی سے مستفید ہوں گے۔ اس صورت حال پر احمد ندیم قاسمی کا لیڈر کی تعبیر وتشریح پر مبنی ایک شعر بے ساختہ یاد آتا ہے کہ
مجھے مامور رکھیں گے یہ بارش کی دعائوں پر
مگر بوندوں سے میرا حلق تر ہونے نہیں دیں گے
اس طرح ملک کے معاشی حالات کے تناظر میں حکومت نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں کی سی کیفیت کا شکار ہے۔ ایک طرف معیشت اور عوام حالات کی صلیب پر جھول رہے ہیں تو دوسری طرف حکومت پر اعتماد ہے کہ مہنگائی عارضی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی بار بار گھبرانا نہیں کی تلقین کرتے ہوئے مہنگائی کو عارضی کہہ رہے ہیں۔ ان کی معاشی ٹیم تو تاویلات کے پھندے میں پھنس چکی ہے اور مہنگائی کی فیوض وبرکات گنوانے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ عارضی مہنگائی کا یہ دورانیہ طویل سے طویل تر ہوتا جا رہا ہے۔ امریکی پابندیوں کے بعد پاکستان کی معیشت کو مزید جھٹکے لگنا یقینی ہیں تو ایسی صورت میں مستقبل کے منظر نامے کا تصور کرکے خوف آتا ہے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین بھی خود اعتمادی کے اعلی مقام پر فائز ہیں اور انہوں نے اعلان کیا تھا میں کہیں نہیں جا رہا۔ ملکی معیشت جلد ٹھیک ہو گی۔ وہ جلد کب آئے گی؟ کسی کو علم نہیں۔ فی الحال تو مہنگائی کی چکی میں عوام کا قیمہ بن رہا ہے۔ بازاروں میں ہر شے کی قیمت کو پر لگ گئے ہیں اور آئی ایم ایف واقعی عوام کی چیخیں نکال رہا ہے۔
حکومت امریکا کے مقابل کھڑی ہے تو اسے ردعمل کے لیے بھی تیار ہونا چاہیے تھا اور پلان بی کے تحت عوام کو بچانے کی کوئی تدبیر بھی تیار ہونی چاہیے تھی۔ اس کے لیے مختلف تاویلات اور دلائل بھی پیش کیے جاتے ہیں مگر عام آدمی کو روٹی سے غرض ہے وہ دلائل سن کر اپنا پیٹ نہیں بھر سکتا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ رہی سہی کسر نکالنے کے لیے کافی ہے۔ مانا کہ آئی ایم ایف مغربی اداروں کا ایک مہرہ ہے اور وہ ان مغربی ملکوں کے احکامات کی سرتابی نہیں کر سکتا اور مغربی ملک اس وقت پاکستان کے سیاسی نظام سے ناخوش ہیں اور یہ ناخوشی ایک کشیدگی میں ڈھل چکی ہے۔ انہی طاقتوں کے زیر اثر آئی ایم ایف پاکستانی عوام پر ٹیکس لگاکر حکومت کو غیر مقبول بنانے کے ذریعے بدلے چکا رہا ہے۔ عدم مقبولیت نے حکومت کو پانیوں پر تیرتی کاغذ کی نائو بنا دیا ہے۔ موجودہ حالات میں انتخابات ہوں تو عوام اپنا حساب برابر کرنے میں لمحوں کی تاخیر نہیں کریں گے۔ مہنگائی کی وجوہات کچھ بھی ہوں مگر مہنگائی کا ہر کوڑا عوام کی کمر پر ہی برستا ہے۔ مہنگائی پہلے ہی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ تیل وگیس اور بجلی میں ہر اضافہ سے مہنگائی میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ عام آدمی مہنگائی کے ہاتھوں عاجز اور پریشان ہے۔ ایک طرف حکومت اور اداروں کا دعوی ہے کہ ملکی معیشت بہتر ہوگئی ہے تو دوسری طرف اس کے اثرات زمین پر نظر نہیں آتے۔ اب اگر معیشت میں بہتری کے آثار ہیں تو اسے ایک معجزہ ہی کہا جاسکتا ہے۔
معیشت کی بہتری کے اثرات اب عام آدمی تک پہنچنا لازمی ہوں گے۔ اس وقت عام آدمی کی معاشی حالت اچھی نہیں۔ مہنگائی نے عام آدمی کا سانس لینا محال بنا دیا ہے۔ آٹا، چینی، دالیں، گھی اور انڈے جیسی بنیادی ضروریات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں۔ اس طرز کے حالات کے باعث معاشرے میں بدترین معاشی عدم توازن پیدا ہو تا ہے۔ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا ہے۔
مڈل کلاس ختم ہوجاتی ہے اور اوپر امیر تو نیچے غریب کراہتا اور حالات کی کیچڑ میں لت پت نظر آتا ہے۔ کورونا کی وبا عام آدمی کے سر پر پھٹنے والا ایک اور معاشی بم ثابت ہوئی ہے۔ ان حالات میں یہ ضروری ہوگیا ہے کہ حکومت معاشی استحکام کے اثرات عام آدمی تک پہنچائے اور مہنگائی کے جن کو قابو کرکے عام آدمی کو ریلیف فراہم کرے۔ اس کے سوا عام آدمی کو معیشت کی بہتری کے دعوئوں پر یقین نہیں آسکتا۔ ملکی معیشت بہتر ہو اور معاشرہ اس کے اثرات سے محروم رہے یہ قرین انصاف نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کو انتظامی مشینری اور قانون کا سہارا لے کر مہنگائی کا علاج دریافت کرنا چاہیے۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنا حکومت کے اختیار میں ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کچھ انتظامی عناصر مافیاز کے ساتھ مل کر ہیرا پھیری کر رہے ہیں۔ جس سے مہنگائی کو مصنوعی طور پر بڑھایا گیا۔ اس کا حل نکالنا بھی حکومت ہی کی ذمے داری ہے۔ انتظامیہ کے ذریعے بازاروں اور مارکیٹوں کی نگرانی بھی حکومت کی ذمے داری ہے۔