
اخلاقیات اور ہمارا معاشرتی طرز عمل
پیارے قارئین کرام! موضوع سخن تو اتنا اہم ہے کہ نوک قلم سے موتی بکھیرنا میری اوقت نہیں لیکن عطا اس رب کریم کی کہ حرمت قلم کا پاس رہتے ہوئے اپنی گذارشات پیش کرنے کی سکت عطا فرمائی۔جس کی نہ ابتدا،نہ کوئی حد و انتہا۔۔۔وہ علم ہے بصیروخبیروعلیم کا۔تعریف کے قابل وہ ذات عظیم ہے جس نے انسان کو بے شمار صلاحیتوں سے نوزا اور اس کارخانہ قدرت میں بھیجا۔ہدایت و رہنمائی کا اہتمام بھی فرمایا۔حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخری پیغمبر ورسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنی بھی ہستیاں کرہ ارض میں تشریف فرما ہوئیں ان کی ذمہ داریوں میں اصلاحی پہلو بہت نمایاں رہا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں بے پناہ خوبیاں تھیں وہیں مکارم اخلاق ہونے کا اعزاز بھی ملا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثالی زندگی ہمارے لیئے نمونہ کامل ہے۔وہ عظیم معلم انسانیت جو قرآن کا پیام لائے،اور ہادی برحق بن کر آئے،انسانیت کی تربیت ایسے خطوط پر کی کہ عرب کے ریگستان میں مسرتوں کے پھول کھل اٹھے۔بقول شاعر :ـکیا امیوں نے جہاں میں اجالا۔۔ہوا جس سے اسلام کا بول بالا۔بتوں کو عرب اور عجم سے نکالا۔۔ہر اک ڈوبتی ناو کو جا سنبھالا۔معلم انسانیت کے روشن اور درخشاں کارناموں میں سے ایک درخشاں پہلو حسن اخلاق کی تعلیم و تربیت کا پرچار کرنا بھی تھا۔گویا کہ جہاں میں تبدیلی کی ہوا چل پڑی۔حسن عمل کی رعنائی سے ہدایت کے چراغ جلیاور ظلمات کا خاتمہ ہوا۔علم روشنی اور جہالت اندھیرا کے تصور کو اس قدر اجاگر فرمایا کہ دنیا میں ایک ہلچل سی مچ گئی اور انقلاب نے دستک دی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ایسا نصاب متعارف فرمایا کہ گناہوں اور اخلاق رذیلہ کے الجھیڑوں میں الجھتی انسانیت کو قرار آیا۔محبتوں کے پھول ایسے کھل اٹھے کہ اخلاق رذیلہ کی کراہت آمیز کیفیت کا خاتمہ ہوا۔حسن اخلاق کی خوشبو ایسے پھیلی کہ کوچہ و دیوار و در مہک اٹھے۔باد نسیم کے جھونکوں سے رونق افروز مناظر پیدا ہوئے۔تو فلک نے ناز برسائے، چاند نے چاندنی کی نقرء کرنیں بکھیریں اورسورج کی روشنی نے ایسے شگوفے کھلائیکہ چہار جانب بہار ہی بہار دکھلائی دی۔ وہ بوریا نشین ہستی جس نے عاجزی کا خرقہ پہن کر انسانیت کا وقار بلند فرمایاان پر لاکھوں درودوسلام کیونکہ انسانیت کو رحیم و کریم ذات سے ایسا ملایا کہ صبح کی چاشنی اور شام کا شفق بھی ناز برداری کرنے لگی۔حضرت بلال رضی اللہ عنہ جو اسلام کے موئذن تھے تو صدائے اللہ اکبر سے انسانیت کو اللہ کی عبادت یعنی نماز کی ادئیگی کے لیے دعوت کا عمل جاری فرمایا۔تو انسانیت سکون قلب کے لئے بے تاب ہوئی۔محسن انسانیت نے پڑوسیوں کے حقوق،والدین کے حقوق،ازدواج کے حقوق،اولاد کے حقوق، کا جامع نظام پیش کر کے اندھیری رات میں صبح طلوع فرماتے ہوئے عہد زریں کی نوید فرمائی۔فقیروں کا ملجا،ضعیفوں کا ماوی۔۔یتیموں کا والی غلاموں کا مولا نے تو مکارم اخلاق سے کائنات کے حسن کو حسین تر بنا دیا۔انسان کو مقصد تخلیق کا مفہوم اس انداز سے سمجھایا کہ سچی محبت اور حقیقی فلاح کا تصور پختہ ہوا۔حلال اور حرام کی تمیز کی صلاحیت پیدا ہونے سے انسان کے باطن کی صفائی اور جسمانی پاکیزگی کا کام آسان بنا دیا۔اخلاق حسنہ اور اخلاق سیہ کے فلسفہ سے حیات انسانی میں ایک دلکش رنگ پیدا ہوا کہ پیراہن انسانیت بھی خوشنما و خوبصورت ہوا۔مخزن اخلاق کے چرچے عام ہونے سے دنیائے علم و دانش نے مقام پایا۔وہ مذموم شاعری جو عہد جہالت میں بڑے ناز بھرے انداز سے پیش کی جاتی تھی دم توڑ گئی۔حب الہی اور اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دلفریب صدائے حق نے تو اور ہی رونق پیدا کر دی۔شعور نے انگڑائی لی تو کائنات کا ذرہ ذرہ بقعہ نور بن گیا۔خندہ پیشانی کہ ایسے پھول کھلے کہ اتحاد و اتفاق سے معاشرتی نظام خوبصورتی کی علامت بن گیا۔وہ انسان جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے بھائی بھائی بن گئے۔اس ضمن میں عصر حاضر کا تذکرہ ضروری خیال کرتا ہوں۔ جدت پسندی کے لباس میں ملبوس انسانیت کیا رحم کے قابل نہیں جو اخلاق حسنہ سے محروم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا نوع انساں کو۔کیا ہماری کامیابی اخلاق حسنہ کے اپنانے میں نہیں ہے کہ ہم غیروں کی نقالی کرتے ہوئے کسی خوش فہمی کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ہر گز نہیں ہمیں اس حسن ادا کو اپنانا ہے جو عرب کے روشن جمیل آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا۔عادات جمیلہ سے ہی انسان کی زندگی دلکشی کا روپ دھار سکتی ہے۔صبر،شکر،برداشت،قناعت،صلہ رحمی،ایسی خوشنما خوبیاں ہیں جن سے چمن حیات میں بہار آ سکتی ہے۔ضد،بغض،حسد،اور غیبت کی تباہ کاریاں ایسی ہیں جن سے امن کی فصل تباہ ہی نہیں ہوتی بلکہ سماج بربادی کا المناک منظر بھی پیش کر سکتا ہے۔زبان کی تباہ کاریوں سے کون واقف نہیں اس کی حفاظت سے ہی ہمارا معاشرتی بھرم برقرار رہ سکتا ہے۔مسلمانوں کے باہمی محبت و اخوت کے رشتے مظبوط نظام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔وہ معاشرہ کتنا مظلوم ہوتا ہے جہاں اخلاقیات کا فقدان ہو۔بری عادات سے نہ صرف انسان کی زندگی بوجھ محسوس ہوتی ہے بلکہ رونق حیات بھی ختم ہوتی ہے۔لوگ زبان سے جو بھی الفاظ بولتے ہیں وہ دلوں پر نقش ہوتے ہیں۔وہ لوگوں کے دلوں میں سدا زندہ رہتے ہیں۔کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ وہ کونسی اخلاقی برائیاں ہیں جو ہمیں بربادی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔قطع رحمی ایک ایسا ناسور ہے جو معاشرتی مزاج کو سخت متاثر کرتا ہے۔اصلا ح معاشرہ کا کام تبھی آسان ہوتا ہے جب اچھی اور مثالی اقدار اپنائی جائیں۔بے حیائی ایسا مذموم رحجان ہے جو معاشرتی زندگی کے لیئے تباہی کی اساس ہے۔اسلام نے حیائ و شرم کا بہترین تصور پیش کرتے ہوئے انسانی زندگی کے تحفظ کی ضمانت فراہم کی ہے۔انسانی حقوق کی پاسداری سے بقائ ملتی ہے۔صلہ رحمی اتنی خوبصورت ہے کہ اس سے چین اور اطمینان کا خزینہ نصیب ہوتا ہے۔معاملات صاف ستھرے رکھنا بھی معاشرتی استحکام کے لیئے ناگزیر ہے۔لین دین کے معاملات میں توازن رہنا چاہیئے۔دولت کی فروانی کی ہوس اگر بڑھتی رہے تو پھر نقطہ زوال شروع ہو پاتا ہے۔دوسروں کے معاملات سدھارنے میں تاریخ ساز کردار ادا کرنے کی ضرورت رہتی ہیدومسلمان بھائیوں کے مابین صلح جوئی سب سے بڑی خوبی ہے۔غربائ سے اچھا سلوک روا رکھا جائیتو معاشرتی زندگی میں انقلاب آفرینی پیدا ہوتی ہے۔وہ معاشرہ کبھی تباہ و برباد نہیں ہوتا جہاں اخلاقیات کا اہتمام کیا جائے۔حاکم اور محکوم کا مقام متعین کیا جائے۔مومن کے بارے میں یہ بات بڑی ہی احسن ہے انداز کے ساتھ ہے کہ اس کا چہرہ ہشاش بشاش رہتا ہے۔بیمار پرسی احسن عمل ہے۔رب کریم قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ:ـاے محبوب معاف کرنا اختیار کرنا سیکھو،اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیر لو(سورت الاعراف آیت نمب 199) پیارے قارئین کرام!کھلے ماتھے اور بہتر انداز کے ساتھ ملاقات کرنا،خوب بھلائی کرنا،اور کسی کو اذیت نہ دینا حسن اخلاق کہلاتا ہے۔سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم مخزن اخلاق کا خزینہ ہے۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں