خواجہ فرید یونیورسٹی ٹیکنالوجی رحیم یار خان شاندار ماضی اور مستقبل کے اندیشے

خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی رحیم یار خان کی شاندار سڑکوں پر اساتذہ سراپا احتجاج کیوں؟ احتجاج کا یہ سلسلہ کئی مہینوں سے جاری ہے جو اپنے مطالبات کی خاطر سراپا احتجاج ہیں۔ یہ الگ بحث ہے کہ جس قوم، وطن، شہر یا اِدارے کے اساتذہ سڑکوں پر ہوں، وہ بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہوں، پھر انجام گلستاں کیا ہوگا۔ یہ الگ بحث ہے کہ انہی قوموں نے ترقی کی منازل بڑی جلدی سے طے کیں۔ جنہوں نے معلم کی عزت ووقار کو مقدم رکھا۔ جس اِدارے کے قوم کے معمار اپنے ہی اِدارے کی درودیوار کے سامنے صدا بلند کر رہے ہوں۔ استاد کو عزت دو، غنڈہ گردی بند کرو، دو نمبری، اندھیر نگری، چوپڑ راج بند کرو، ریاست مدینہ میں استاد کا استحصال بند کرو، ملازمین کو بحال کرو وغیرہ۔ اس اِدارے کی انتظامیہ کے بارے میں کیسے کیسے سوال پیدا ہوں گے؟ اس اِدارے کے بارے میں نوجوان کس کرب سے گزر رہے ہوں گے؟ اس اِدارے کی وجہ سے شہرِ رحیم یار خان ہی نہیں، جنوبی پنجاب ہی نہیں پنجاب بھی نہیں بلکہ پاکستان کی تعلیمی منظر کشی دنیا کن نظروں سے دیکھ رہی ہو گی؟جب ایک اِدارے کا سربراہ تعصب، بدگمانی، بد دیانتی کی گرد آلودگی کی تصویر بن بیٹھے، جب ایک اِدارے کا سربراہ نامناسب، نامعقول، کھوج لگانا شروع کر دے، جب ایک اِدارے کا سربراہ اپنی توانائی، توجہ صرف منفی سوچ وپروپیگنڈہ پر مبذول کر کے بیٹھ جائے، جب ان افراد کو ٹارگٹ کرے جن کا شمار یونیوسٹی کے بانیوں میں ہوتا ہو تب انجام گلستاں کیا ہوگا؟ اس یونیورسٹی کا اعلان 2014میں میاں شہباز شریف سابق وزیر اعلی پنجاب نے کیا۔ ابتدائی کلاسز کا اجرا شہر سے کم وبیش 18کلو میٹر دور چار پانچ کمروں کی عمارت میں ہوا۔ یونیورسٹی بنانے کے لیے ابتدائی طور پر 200 ایکڑ اراضی مختص کی گئی، بعدازاں اس کا رقبہ 275ایکڑ پر محیط ہوا۔ میاں صاحب نے اس کی تعمیر، آلات، دیگر اخراجات کے لیے کم وبیش چار ارب روپے کے فنڈز جاری کر دئیے۔ ابتدائی طور پر یونیورسٹی کا چارج انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے پاس تھا۔ لاہور بیٹھ کر رحیم یار خان کے کسی اِدارے کے حالات کو دیکھنا صرف کاغذی کاروائی تک ہوسکا۔ ستمبر 2015میں ایک ایسے نوجوان کی تعیناتی ہوئی جس میں ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنے آپ کو منوایا۔ اپنی اہلیت کا ثبوت نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک میں بھی دیا۔ حکومت پاکستان نے تمغہ امتیاز سے نوازا۔ جن کے سینکڑوں شاگرد مختلف ممالک میں پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں۔ اب ان کے سامنے ایک بڑا ٹارگٹ تھا۔ یونیوسٹی کو خوابوں کی دنیا سے نکال کر گرانڈ سطح تک لانا تھا۔ انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اختر محبوب مختلف پراجیکٹس پر کام کر چکے تھے اس لحاظ سے وسیع تجربہ بھی رکھتے تھے۔ ان کے لیے اگرچہ یہ چیلنج تھا لیکن مشکل بھی نہیں تھا۔ تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ ذمہ داری پھولوں کی سیج نہیں بلکہ منزل کا راستہ خار دار جھاڑیوں سے گزرتا ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اراضی وگزار کرانا پی سی ون میں متعدد کمیوں کو ملحوظ خاطر رکھنا، اپنی ٹیم بنانا، عمارت کی تعمیر کے لیے مختلف مسائل کا سامنا کرنا آسان نہیں۔ جب تعمیر وترقی کا سفر شروع ہوا تب ایک حلقہ جس کا نام بیوروکریسی ہے ان کے سامنے بار بار جواب دہ ہونا، قائل کرنا، مطمعین کرنا سب سے مشکل رہا۔ اس مقصد کے لیے اپنے من کو بھی صبر وتحمل کے حصار میں لئے رکھا۔ اس دوران بھی سنگ باری ہوتی رہی، لیکن سفر جاری رکھا۔ یہ پہلا وائس چانسلر ہوگا جو بیک وقت متعدد ذمہ داریاں نبھاتا رہا، حتی کہ کلرکی بھی کرنا عار نہ سمجھا۔ بانی وائس چانسلر نے جب اس یونیورسٹی کا چارج لیا تو صرف طلبا کی تعداد 130تھی، یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ یونیورسٹی میں 1500طلبا وطالبات داخل ہو پائیں تو کافی ہیں۔ ایک برس کے کم عرصے میں یونیورسٹی کی چادر چاردیواری، سیکورٹی، عمارت کی تزئین ومرمت، نئی بلڈنگز کا ڈھانچہ کھڑا ہونا کافی مشکل تھا۔ یہ الزام بھی لگا کہ پہلے سے موجود عمارت کی مرمت وتذئین کرنا درست نہیں جو انتہائی افسوس ناک امر تھا۔ الغرض یہ منصوبہ تکمیل کی طرف تیزی سے بڑھتا رہا، انکوائریوں کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ الغرض 2018میں ایک نہایت خوبصورت یونیورسٹی بن چکی تھی اور دیکھنے والے حیران رہ گئے، الزام تراشیاں کرنے والے مایوس ہو گئے۔ پھر کیوں کہ ایک صوبے کا وزیر اعلی جس کے منہ سے کسی دوسرے کے لیے داد کے لفظ بہت کم نکلتے ہیں۔ میاں شہباز شریف نے بڑی تقریب سے اپنے کلیدی خطاب کے دوران کہا کہ میں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کو سلام پیش کرتا ہوں۔ اس دن وہ تمام الزامات دھل گئے۔ انہوں نے یونیورسٹی کے لیے اچھا سٹف چننا تھا جس کے لیے اشتہارات، کمیٹیوں کی منظوری اور دیگر ایس او پیز کو ملحوظ خاطر رکھا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ جس اِدارے کا آغاز صرف چار پروگرامز سے ہوا، جہاں پر صرف اساتذہ کی تعداد ایک درجن سے بھی کم تھی، وہاں پر صرف چار سال کے مختصر عرصے میں یہ اِدارہ 94پروگرامز تک پہنچ گیااور 300سے زائد سکالرز اساتذہ بھرتی ہوئے جن میں سے کم وبیش 110پی ایچ ڈی سکالرز تھے۔ جس اِدارے میں صرف 130طلبا وطالبات تھے وہ تعداد 15ہزار تک پہنچ گئی۔ اِدارے نے چار برسوں میں جتنی ترقی کی وہ ایک ریکارڈ ہے جس کو نہ صرف اس وقت کی حکومت نے سراہا بلکہ اب موجودہ حکومت کے ذمہ داران بھی سراہا رہے ہیں۔ یونیورسٹی نے ترقی کی منزلیں تو طے کرلی ہیں لیکن بدقسمتی سے اب موجودہ انتظامیہ نے تعصب کی عینک پہن لی ہے اور انتقامی سرگرمی پر اتری ہوئی ہے۔ بانی وائس چانسلر کے ساتھ ساتھ وہاں پر موجود اساتذہ اور دیگر ملازمین کی اکثریت کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ ان کے عزتِ نفس کو مجروح کیا جا رہا ہے۔ منفی ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ حالانکہ وہ دیکھ بھی رہے ہیں اور جانتے بھی ہیں کہ آج جس خوبصورت عمارت اور فضا میں بیٹھے اقتدار کے مزے لے رہے ہیں اس کی تکمیل کے لیے سخت موسموں کے تھپیڑے برداشت کیے۔ اپنا سکون برباد کیا۔ اپنے دامن پر الزامات کی گرد سے دوچار ہوئے۔ اِن پر الزام لگاتے رہے اور لگائے جا رہے ہیں، انہوں نے صبر وتحمل کے ساتھ ان الزامات کا جواب ثبوت کے ساتھ دیا۔ اس کے باوجود ان کی کردار کشی کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی رحیم یار خان کے ملازمین کا استحصال بارے 16جولائی 2020کو خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی رحیم یار خان کی طرف سے بنائی گئی انکوائری کمیٹی مظہر علی خان سابق سیکریٹری، کنوینیر اور ممبران ڈاکٹر فضل احمد خان، ڈاکٹر شعیب انوراور محمد انیس شیخ پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس کمیٹی کا مقصد فیکلٹی اور سٹاف کی شکایات کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرنا تھی۔ 57اساتذہ اور ملازمین نے اپنی شکایات کمیٹی کو پیش کیں۔ جن میں ڈاکٹر محمد سلمان طاہر کی جانب سے اساتذہ اور ملازمین کے ساتھ برتا جانے والا نارواامتیازی سلوک بالکل واضح تھا۔ ملازمین کی تنخواہیں اور اینکریمنٹ روک دئیے گئے اور مختلف ملازمین کو مختلف سیلری پیکج اور اینکریمنٹ دئے گئے۔ کچھ لوگوں کی تنخواہ کم کر دی گئی اور کنٹریکٹ اور ایڈہاک ازم کی سولی پر لٹکا دیا گیا۔ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے واضح طور پر کہا کہ ملازمین کے خلاف بغیر ثبوت اور انکوائری کے کوئی سخت ایکشن نہ لیا جائے اور ان کے جائز مطالبات تسلیم کئے جائیں۔ وائس چانسلر ڈاکٹر سلمان طاہر نے بھی خود اپنی ایڈمنسٹریشن کی جانب سے کئے جانے والی ان زیادتیوں کا برملا اظہار کیا۔ ایک طرف تو حالت یہ ہے کہ خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئر اینڈ ٹیکنالوجی کے ملازمین یونیورسٹی کے موجودہ انتظامیہ کی نااہلی، اقربا پروری اور تعصب کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں اور سراپا احتجاج ہیں۔ کمیٹی نے کہا کہ سابق وائس چانسلر خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کا ملازمین کے خلاف انتقامی کاروائیوں پر موقف وزن رکھتا ہے اور موجودہ یونیورسٹی انتظامیہ شفاف تقررریوں پر کئے گئے اپنے بیان حلفی سے مکر گئی ہے۔ انکوائری کمیٹی نے واضح طور پر لکھا ہے کہ ڈاکٹر سلمان طاہر سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کے خلاف انتقامی کاروائیوں، جعلی اور غیر قانونی انکوائری کمیٹیوں کے ذریعے ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گئے ہیں اور اپنے اصل منڈیڈیٹ سے انحراف کر رہے ہیں جس کی وجہ سے یونیورسٹی روز بروز تنزلی کا شکار ہے۔ 10نومبر 2020کو سینڈیکیٹ کی 7ویں میٹنگ میں سلیکشن بورڈ کو مجبور کر کے بنائی گئی سفارشات کو سینڈیکٹ میں پیش کیا گیا اور وائس چانسلر کے اختیارات کا غلط استعمال کیا گیا، یعنی سروس قوانین کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ اسی وجہ سے ایجنڈا ایٹم نمبر7نامنظور کرتے ہوئے سروس رول کی منظوری تک ملتوی کر دیا گیا۔ شکر خدا کا کہ سلیکشن بورڈ کو پریشر میں ڈال کر جو سفارشات کرائیں گئیں وہ سینڈیکیٹ نے روک دیں۔ انکوائری رپورٹ کے پوائنٹ نمبر6میں پروفیسر ڈاکٹر محمد سلمان طاہر اور ان کی انتظامیہ کے خلاف اور چارج شیٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ثبوتوں کے لئے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد سلمان طاہر، رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر اصغر ہاشمی اور ڈپٹی رجسٹرار ظہور الہی سے درخواست کے باوجود سال 2019-20کے باقی امور کی کوئی تفصیل فراہم نہیں کی گئی اور مزید انکوائری کے لئے کہہ دیا گیا۔ انتظامی بدعنوانیوں کی تو فہرست بہت طویل ہے۔ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے 26مارچ 2019کے خط کی روشنی میں تعیناتیوں میں شفافیت جس میں اشتہار اور دیگر امور شامل ہیں، میں بالکل نظر انداز کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں تمام سرکاری اِداروں میں اسامیوں کو قومی اخباروں میں مشتہر کیا جاتا ہے لیکن موجودہ انتظامیہ نے اس کی بالکل خلاف ورزی کی۔ مزیدبراں پنجاب ریگولریزیشن ایکٹ 2018پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔ اپنے جواب میں وائس چانسلر ڈاکٹر سلمان طاہر نے ان بے قاعدگیوں کا اعتراف کیا ہے مگر کوئی مناسب جواب نہیں دیا۔ ایک طرف تو یہ صورتحال ہے کہ خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئر اینڈ ٹیکنالوجی انتظامی اور معاشی طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ سینکڑوں ملازمین بیروزگاری کے خطرے کے پیش نظر سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔ یونیورسٹی میں تعلیمی سلسلہ جمود کا شکار ہے۔ دوسری طرف پوری انتظامی مشینری سابق وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کے خلاف ایک نام نہاد انکوائری کمیٹی کے ذریعے عوامی اور حکومتی توجہ کا رخ موڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔ سابق وائس چانسلر کے خلاف قائم کی جانے والی کمیٹی پہلے ہی غیر قانونی قرار دے دی گئی ہے۔دراصل ہیرو تو انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب ہیں جنہوں نے مسلسل ساڑے تین برس دن رات ایک کر کے جنوبی پنجاب کو سائنس وٹیکنالوجی کے شعبے میں ایک اعلی ترین یونیورسٹی دی جو سندھ اورپنجاب کے سنگم پر ایک بہترین اعلی تعلیمی اِدارہ ہے جس سے راجن پور، رحیم یار خان، کشمور، سکھراور بلوچستان کے نواحی اضلاع کے طلبا وطالبات مستفید ہو رہے ہیں۔ اس قومی خدمت پر تو انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب جو پہلے ہی اپنی اعلی انتظامی، تعلیمی اور تحقیقی صلاحیتوں کے بل بوتے پر تمغہ امتیاز حاصل کر چکے ہیں،مزید تمغوں اور انعامات کے مستحق ہیں۔ مگر انہیں خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئر اینڈ ٹیکنالوجی رحیم یار خان کی موجودہ ناہل انتظامیہ کی جانب سے اپنی نااہلی چھپانے کے لیے جھوٹے الزمات میں بدنام کرنے کی ناکام کوشش ہو رہی ہے۔ لیکن جنوبی پنجاب کے ہزاروں والدین اور طلبا ہائرایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے افسران اس مرد حق کی انتھک کوششوں اور کامیابیوں کے گواہ ہیں اور ان نام نہاد تعلیمی بونوں کی تمام تر کاوشیں ملیا میٹ ہو جائیں گی۔ جن کی نااہلیوں، بددیانتوں اور ناکامیوں کی ایک جھلک کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں کچھ ناعاقبت اندیشن عناصر اپنی کمزوریوں اور ناکامیوں کو چھپانے کے لئے اصل محسنوں اور ہیروز پر کیچڑ اچھالتے ہیں مگر مایوسی اور ناکامی ہی ایسے لوگوں کا مقد ر ہے کیونکہ سچائی ہمیشہ روزِ روشن کی طرح عیاں رہتی ہے۔