میرے پاکستانیو ہنسنا منع ہے؟
خدا جانے پاکستانیوں کے لیے ہنسنا کیوں منع ہے۔ جب بھی حالات ِ زمانہ کا شکار ہنسنے اور خوش ہونے کا کوئی بہانہ ڈھونڈتے ہیں اچانک رنگ میں بھنگ ڈالنے والا کوئی واقعہ رونما ہوجاتا ہے اور یوں ہنستے ہنستے پوری قوم اس واقعے کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے اور یوں ہنسی اور خوشی ادھوری رہ جاتی ہے۔ کچھ اور نہ ہو بھلے مانس لوگ کوئی ایسی شرلی چھوڑ دیتے ہیں کہ خوشی کا سارا مزہ خراب ہو کر رہ جاتا ہے۔ حال ہی میں چودہ اگست کو جب نوجوان طبقہ جوش وخروش سے یوم پاکستان منا رہا تھا۔ سبز رنگ کے لباس زیب تن کیے ہوئے نوجوان جابجا نظر آتے تھے کہ اچانک مینار پاکستان کا واقعہ ہوا جس میں ایک ٹک ٹاکر لڑکی کے ساتھ ہجوم نے نازیبا اور ناروا حرکت کی۔ واقعے کی خبر ملتے ہی نازیبا سلوک کی وڈیوز بھی اقساط میں ریلیز ہونا شروع ہوئیں۔ پوری قوم پر سکتہ طاری ہوگیا کہ آخر یہ معاشرہ کس سمت میں جا رہا ہے؟۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس واقعے کی گونج پاکستان کے حوالے سے ہمہ وقت فیک نیوز کی تلاش میں مصروف میں بھارتی میڈیا میں سنائی دینے لگی۔ پاکستانی عوام کا مذاق اڑایا جانے لگا۔ ان کی درندگی اور خواتین کی تذلیل پر مبنی رویوں کی داستانیں سنائی دینے لگیں۔ مینار پاکستان کا حوالہ دے کر اس واقعے کو بیان کیا جانے لگا۔ واقعہ ناخوش گوار تھا اور خود مذمتی بجا بھی تھی۔ اس واقعے نے قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔ بعض دل گرفتہ اور مایوس لوگ تو یہ کہتے سنے گئے کہ یوم پاکستان کی عوامی انداز میں تقریبات پر ہی پابندی لگا دینی چاہیے۔
کچھ یہی معاملہ کرکٹ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اس روز ہوا جب پاکستانی ٹیم نیوزی لینڈ کی ٹیم سے میچ جیتنے کے قریب تھی اور فتح کے آثار نمایاں ہوتے ہی قوم جشن منارہی تھی اور اس میچ کے نتائج اور کھلاڑیوں کی کارکردگی۔ اس میچ کی اہمیت کسی طور بھارت سے کھیلے جانے والے میچ سے کم نہ تھی کیونکہ نیوزی لینڈ کی ٹیم حال ہی میں انتہائی متکبرانہ انداز میں پاکستان میں میچ کھیلنے سے انکاری ہو کر واپس جانے کی حرکت کی مرتکب ہوئی تھی۔ یہ فیصلہ بھارت کے دبائو میں کیا گیا تھا اوراس سے بین الاقوامی سطح پر جہاں پاکستان کی سبکی ہوئی وہیں پاکستان میں امن اور استحکام کے آگے بھی سوال کھڑا کیا گیا تھا۔ اس لیے پاکستانی عوام اس بار نیوزی لینڈ کو سبق سکھانے میں حد درجہ دلچسپی رکھتے تھے۔ اس انتہائی اہمیت اور عوامی دلچسپی کے حامل میچ کے دوران قومی ٹی وی پر رواں تبصرہ جاری تھا اور اس دوران کرکٹ کے ایک قومی ہیرو شعیب اختر کے ساتھ سپورٹس اینکر نعمان نیاز کی بدسلوکی نے پوری قوم کی توجہ کا رخ موڑ کر رکھ دیا۔ ڈاکٹر نعمان نیاز نامی اینکر نے ایک لائیو پروگرام میں شعیب اختر کو تحکمانہ انداز میں شو چھوڑ کر جانے کو کہا۔ اس طرز تخاطب پر شعیب اختر نے بہت تحمل کے ساتھ ساری صورت حال کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی اور اپنی شناخت کے برعکس کسی قسم کی بدمزگی کو بڑھاوا دینے سے گریز کیا مگر نعمان نیاز کا متکبرانہ انداز جاری رہا ہے اور انہوں نے وقفے کے دوران بھی اپنے رویے پر نظرثانی سے انکار کیا جس کے بعد شعیب اختر پی ٹی وی سے لائیو استعفا دے کر اسٹوڈیو چھوڑ کرنکل گئے۔ یہ منظر پوری دنیا نے دیکھا اور ایک قومی ہیرو کی قومی ٹیلی ویژن پر یہ تضحیک خوشیاں مناتی ہوئے لوگوں کے جذبات پر بجلی بن کر گری۔
نیوزی لینڈ پر فتح کی خوشی کسی طور بھارت کی شکست سے کم خوش کن نہیں تھی کیونکہ چند ہفتے قبل ہی نیوزی لینڈ کی ٹیم میچ کھیلے بغیر پاکستان سے واپس لوٹ گئی تھی جس سے پاکستان کا بین الاقوامی سطح پر امیج بری طرح خراب ہوا تھا اور کرکٹ کے شائقین کو بھی اس سے مایوسی ہوئی تھی۔ پاکستانی ٹیم نے عوام کا یہ سارا غصہ کھیل کے میدان میں نکال کر نیوزی لینڈ کی ٹیم کو بری طرح شکست دی تھی۔ اس پر قوم کا پرجوش اور مسرت سے مسحور ہونا فطری تھا۔ پی ٹی وی کے اینکر نے جو ادارے میں ڈائریکٹر بھی ہے قومی ہیرو سے بدتمیزی کرکے قوم کی توجہ کا رخ موڑ دیا۔ اس کے بعد اس بدسلوکی کی خبر نیوزی لینڈ کی شکست سے بڑا موضوع بن گئی۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں اس واقعے کی گونج سنائی دینے لگی۔ پی ٹی وی کے ایک تنخواہ دار ملازم کی طرف سے قومی ہیرو کے ساتھ اسکرین پر اس بدسلوکی نے پوری قوم کو مایوس اور رنجیدہ کردیا۔ لوگوں نے اپنے جذبات کا اظہار کرکے نعمان نیاز کے اس رویے کی بھرپور مذمت کی اور شعیب اختر کے ساتھ بھرپور یک جہتی کیا گیا۔ عوام کی اکثریت نے نعمان نیاز کی برطرفی کا مطالبہ شروع کیا۔ نعمان نیاز ایک بااثر شخص مانا جاتا ہے اس لیے عوامی دبائو کے باوجود فوری طور پر اس مطالبے کی منظوری نہ ہو سکی۔ پی ٹی وی انتظامیہ نے عوام کی آواز کو سن کر جب اشک شوئی کا انداز اپنایا تو ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی۔ پی ٹی وی انتظامیہ نے ایک عجیب سا اعلامیہ جاری کرکے دونوں افراد کو آف ائر کی خبر سنائی۔ یہ صریح ایک جانبدارانہ رویہ تھا۔ شعیب اختر تو لائیو ہی پی ٹی وی کے پروگرام سے استعفا دے چکے تھے انہیں آف ائر کرنے کی بات قطعی بے معنی تھی۔ صرف نعمان نیاز کو فیس سیونگ دینے کے لیے شعیب اختر اور نعمان نیاز دونوں کو ایک مقام پر رکھا گیا اگر پی ٹی وی انتظامیہ کا آغاز ہی میں یہ رویہ ہے تو کمیٹی سے کس متوازن اور منصفانہ رپورٹ کی توقع کی جا سکتی ہے۔ یہ رویے عوام کو مایوس کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ نعمان نیاز کتنا ہی با اثر کیوں نہ ہو ریاست کو اپنی رٹ قائم کرنا ہوگی اور عوام کے جذبات اور احساسات کا احترام کرتے ہوئے اس معاملے میں انصاف کرنا ہوگا۔