گلے کی ہڈی!

بات چاند دیکھنے پر اختلافات سے شروع ہوئی تھی اور دن کو تارے دکھانے تک پہنچ گئی۔ بظاہر حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان معاہدہ ہو چکا اس پر عملدرآمد ہوتا ہوا بھی نظر آرہا ہے لیکن دونوں جانب اعتماد کا اتنا فقدان ہے کہ کوئی کسی پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کی کوئی گارنٹی قبول کر رہا ہے۔ تحریک لبیک والوں نے معاہدہ کے مطابق جی ٹی روڈ پر رکاوٹیں ختم کر کے ٹریفک بحال کرنی تھی لیکن وہ سڑک سے اٹھ کر پارک میں جابیٹھے ہیں اور بے اعتباری کا یہ عالم ہے کہ دونوں فریقین کو ڈر ہے کہ پتہ نہیں اس معاہدہ پر سو فیصد عمل بھی ہوتا ہے یا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت ابھی تک خندق کھودے بیٹھی ہے اور لبیک والے سڑک سے ہٹ کر میدان میں خیمہ زن ہیں اللہ دونوں کو خدشات سے محفوظ رکھے اور کسی طرح معاملہ حل ہو جائے ۔دراصل تحریک لبیک حکومتوں کے گلے کی ہڈی بن چکی ہے جس کو کوئی بھی حکومت نہ نگلنے کا رسک لے سکتی ہے اور نہ اگلنے کا رسک لے رہی ہے۔
ہر حکومت ہر موقع پر وقتی ٹال مٹول سے کام چلا رہی ہے لیکن دوسری جانب انتخابی سیاست میں ٹی ایل پی کی بڑھتی پذیرائی اسے اور زیادہ سخت موقف اختیار کرنے کی طرف راغب کر رہی ہے انکے قائدین کے ذہنوں میں یہ بات کلبلا رہی ہے کہ وہ ایک موثر سیاسی قوت بن کر اقتدار حاصل کر سکتے ہیں یا اقتدار میں اپنا حصہ وصول کر سکتے ہیں لہذا لڑائی انھیں جلا بخشتی ہے۔ معاہدہ کے باوجود ابھی تک جی ٹی روڈ مکمل بحال نہیں ہو سکی گوجرانوالہ سے جہلم تک کا علاقہ ابھی تک ڈسٹرب ہے جبکہ کریڈٹ لینے والے اسکے فوائد کو سمیٹ رہے ہیں۔ یہ بات تو واضح ہو چکی کہ دونوں فریقین کے درمیان محاذ آرائی کو ختم کروانے میں اہم کردار عسکری قیادت کا ہے اس پر باتیں کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ انہوں نے سب کے لیے بہتری کی راہ نکالی ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ کچھ لوگ جو اس محاذ جنگ سے بہت ساری امیدیں لگائے بیٹھے تھے انکی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے۔ انکی ساری منصوبہ بندی دھری کی دھری رہ گئی ہے۔ ان کو دکھ ہے کہ معاملہ آگے کیوں نہیں بڑھا یا۔ ایسے ہی ہے جیسے کرکٹ کے پہلے میچ میں پاکستان نے انڈیا کو ہرا دیا تو کچھ اینکر اتنے بوجھل دل کیساتھ پاکستان کی جیت کی بات کر رہے تھے جیسے ان کوکاروبار میں گھاٹا پڑ گیا ہو۔
اسی طرح حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان معاہدہ سے کچھ لوگ منہ لٹکائے پھرتے ہیں۔ انکی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح کام خراب ہو جائے ۔وہ طرح طرح کی شدنیاں چھوڑ رہے ہیں لیکن آفرین ہے ان لوگوں پر جو سارا کچھ جانتے سمجھتے ہوئے بھی خاموشی کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ پہلی بار حکومت تدبر کے ساتھ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے اور پولیس کی شہادتوں، جذباتی بیان بازی، طرح طرح کی پوسٹوں اور تحریروں کے باوجود اس کا جواب نہیں دے رہی۔
دونوں فریقین کی طرف سے یہ طے ہوا تھا کہ معاہدہ کو خفیہ رکھا جائیگا لیکن ہمارے ہاں اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے اور اس میں بڑے بڑے لوگ بھی بہہ جاتے ہیں۔ سب سے پہلے اس کا آغاز آرمی چیف کے ساتھ تصویر منظر عام پر لانے سے ہوا پھر مولانا بشیر صاحب نے ایک دوست صحافی سے گفتگو میں بہت کچھ اس انداز میں کہا کہ وہ چپ بھی رہے اور سارا کچھ کہہ بھی گئے رہی سہی کسر چاند دیکھنے والے حضرت صاحب نے پوری کر دی جو چاند دیکھنے کے بعد اعلان بھی ڈیڑھ گھنٹے کی تقریر کے بعد کرتے تھے اور قوم کو صبر کی سولی پر لٹکائے رکھتے تھے۔ انکے تاخیری فیصلے سے تاجر برادری بڑی مستفید ہوتی تھی انہوں نے پہلے تو پریس کانفرنس کے موقع پر معاہدہ کے کچھ نکات اشاروں کنایوں میں بتائے اور باقی سارا کچھ وزیر آباد میں احتجاج کرنے والے کارکنوں سے خطاب میں بتا دیا۔
حکومت اس معاہدہ کو تاحال خفیہ رکھ کر بیٹھی ہوئی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اب بچے بچے کو پتہ چل چکا ہے حکومت نے کیا مانا ہے اور تحریک لبیک والے کن نکات سے پیچھے ہٹے ہیں۔ ان سارے معاملات میں ہمیں ایک اور بات رڑکتی رہی اور وہ تھی مولانا منیب الرحمن اور فواد چوہدری کا چاند دیکھنے کے معاملہ میں پرانا اٹ کھڑکا، لگتا ہے کہ مولانا نے وہ بات اپنے دل سے نہیں نکالی وہ سمجھتے ہیں کہ فواد چوہدری نے رویت ہلال کمیٹی کے منصب سے انہیں ہٹوایا ہے اور اب انہوں نے فواد چوہدری پر پھبتیاں کسنے کا موقع غنیمت جانا لیکن فواد چوہدری وزیراعظم کے کہنے پر زبان بندی پر مکمل عمل کر رہے ہیں۔ سنا ہے کہ مفتی منیب الرحمن کی اب وزیراعظم کی جانب سے بنائی جانے والی رحمت العالمین اتھارٹی کی سربراہی پر نظرہے۔
٭٭٭٭٭٭٭