عالمی مہنگائی کے پیچھے چھپنا درست نہیں!
وزیراعظم نے گزشتہ دنوں قوم سے اپنے خطاب میں مہنگائی کو عالمی مسئلہ قرار دیتے ہوئے اسے پاکستان میں بھی مہنگائی کا ذمہ دار قرار دیا اور مہنگائی سے متاثرہ غریب طبقے کے 2 کروڑ خاندانوں کیلئے 120 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے اسے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا فلاحی پروگرام قرار دیا۔
ابھی ریلیف پیکیج کی سیاہی بھی خشک نہ ہونے پائی تھی کہ اگلے روز رات کی تاریکی میں عوام پر پیٹرول بم گراکر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 8 روپے اور بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 1.39 روپے کا اضافہ کردیا گیا۔ اس طرح عوام کی امیدیں مایوسیوں میں بدل گئیں۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ گزشتہ 3برسوں میں ملک میں مہنگائی میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اور اس پر قابو پانے میں حکومت بے بس اور ناکام نظر آرہی ہے جبکہ اپنی ناکامیوں اور بیڈگورننس پر پردہ ڈالنے کیلئے حکومت کبھی عالمی مہنگائی، پچھلی حکومتوں اور کبھی کورونا کے پیچھے چھپتی نظر آتی ہے۔ حکومت کا پیٹرول اور دیگر اشیا کا موازنہ خطے کے دوسرے ممالک سے کرنا تعجب خیز ہے کیونکہ دوسرے ممالک سے موازنہ کرتے وقت حکومت کو ان ممالک میں مہنگائی (Inflation) اور فی کس آمدنی کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔ بھارت جس کی مثال وزیراعظم دے رہے ہیں۔
وہاں مہنگائی کی شرح 5.3 فیصد، بنگلہ دیش میں 5.6 فیصد جبکہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 9.2 فیصد ہے جو 2020 میں 9.7 فیصد تھی۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں فی کس آمدنی 2554 ڈالر اور بھارت میں فی کس آمدنی 2191 ڈالر ہے جبکہ پاکستان میں فی کس آمدنی کم ہوکر 1194 ڈالر کی سطح پر آگئی ہے جو (ن) لیگ دور حکومت میں 1482 ڈالر تھی۔
(ن) لیگ دور حکومت میں معیشت کے حجم میں 36 فیصد اضافہ ہوا تھا لیکن 2018 سے 2020 کے دوران معیشت کے حجم میں 16 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ اِسی طرح نواز شریف کے دور حکومت میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح کم ترین ریکارڈ کی گئی تھی جو اوسطا 5 فیصد رہی جبکہ (ن) لیگ دور حکومت کے آخری دنوں میں ڈالر 116 روپے کا تھا جو آج 172 پر کھڑا ہے۔
اس طرح روپے کی قدر میں گزشتہ 3 برسوں میں 48 فیصد سے زائد کمی واقع ہوئی ہے جو مہنگائی کا بنیادی سبب ہے۔ نتیجتا امپورٹ کی جانے والی روزمرہ استعمال کی اشیا چائے، دالیں، خوردنی تیل، چینی، گندم اور پیٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے جبکہ دوسری طرف آٹا، چینی اور ادویات مافیاز ان اہم ترین بنیادی اشیا پر بے دریغ لوٹ مار جاری رکھے ہوئے ہیں اور اربوں روپے ناجائز منافع کمارہی ہیں اور یہ بنیادی اشیا عوام کی دسترس سے باہر ہوتی جارہی ہیں۔
برطانوی جریدے اکانومسٹ نے اپنی حالیہ اشاعت میں دنیا کے 42 ممالک میں مہنگائی کی فہرست میں پاکستان کو چوتھا ملک قرار دیا ہے، جہاں مہنگائی کا تناسب 9.2 فیصد سے زائد ہے۔
مہنگائی کے ساتھ عوام کو اس وقت بیروزگاری کے سونامی کا بھی سامنا ہے۔ حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چند سال میں 3 سے 4 کروڑ افراد بیروزگار ہوئے ہیں جبکہ 10 فیصد متوسط طبقہ سطح غربت سے نیچے چلاگیا ہے۔ ایسے میں وزیراعظم کا 120 ارب روپے کا ریلیف پیکیج اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔
اس رقم کو اگربراہِ راست 12کروڑ افراد میں تقسیم کیا جائے تو یہ رقم تقریبا 1000 روپے فی کس بنتی ہے لیکن اس اعلان کے ساتھ ہی پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں حالیہ ہوشربا اضافے سے ریلیف پیکیج بے مقصد ثابت ہوا۔ اس سے قبل وزیراعظم کراچی کیلئے بھی 1100 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کرچکے ہیں جس پر آج تک کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی حکومت کے غلط فیصلوں اور بیڈگورننس کا نتیجہ ہے اور مستقبل میں پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے سے آنے والے وقت میں مہنگائی دہرے ہندسے میں داخل ہونے کا بھی خدشہ ہے۔ ایسے میں اگر حکومت مہنگائی پر توجہ دینے کے بجائے اس کا دفاع کرتے ہوئے مہنگائی کا موازنہ بھارت اور بنگلہ دیش سے کرتی رہی اور عوام کو یہ کہہ کر گمراہ کرتی رہی کہ اگر ماضی میں برسراقتدار دو خاندان لوٹی ہوئی رقم واپس لے آئیں تو ملک میں مہنگائی آدھی رہ جائے گی۔ ایسے میں عوام ان سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ انہیں ایسا کرنے سے کون روک رہا ہے کیونکہ نیب جیسے ادارے ان کی مرضی کے تابع ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت عالمی مہنگائی کے پیچھے چھپنے اور آئی ایم ایف کی سخت شرائط قبول کرنے کے بجائے مہنگائی میں کمی لانے کیلئے سنجیدہ اقدامات کرے اور گڈگورننس پر توجہ دے تو ہی مہنگائی کا تدارک ممکن ہے کیونکہ وقت نے ثابت کیا ہے کہ سبسڈی بڑھتی ہوئی مہنگائی روکنے کا حل نہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭