
نہ ہی سفیر کام آیا نہ ہمالہ سے بلند دوستی
ٹرک کے پیچھے ایک شعر لکھا ہوا ہوتا تھا
جہاد زندگانی میں جب کوئی مشکل۔مقام آیا
نہ غیروں نے توجہ دی نہ اپنا کوئی کام آیا
ظالم نے یہ شعر ہماری وزارت خارجہ اور سعودی عرب اور چین کی حکومت کے موجودہ روئیوں پر لکھا ہو گا۔جو آج کل ہمارے دو طبقات کے سامنے دیوار بن کر کھڑا ہو گیا ہے
جی تو نہیں چاہتا تھا کہ اس موضوع پر لکھوں لیکن جب لوگوں کو روتا دیکھتا ہوں تو سوچا کیا مصلحتوں کے پہاڑ تلے دب کر سچ کو چھپانا جرم نہیں ہو گا میں نے ٹیکنالوجسٹ کمیونٹی کے لیے لکھا تو شبلی فراز شفقت محمود کو جھنجھوڑا شکر ہے ایک میٹینگ ہو گئی ڈی سی اسلام آباد کے گلے پڑ کر ہزارہ سے آنے والوں کی زندگی آسان کی۔فیزیو تھراپسٹ کی انگلی تھامی تو ان کا کام ہوا۔افسوس یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہھڈے کرنے ہر ہوا۔چکیں کسی کا کام ہو جائے شائد یہ ہے قبر کی منزلیں آسان بنا دے گا ۔اج صبح طبیعت ایک دم خراب ہوئی ایسا لگ رہا تھا کہ سر اور دونوں بازو پورے جسم سے الگ ہو رہے ہیں ڈاکٹروں نے ہارٹ اٹیک کی جو کیفیات بتائیں مجھے خود محسوس ہوا کہ میں انجائنا کے جانے پہچانے درد سے گزر رہا ہوں بلڈ پریشر اور اینجیسیڈ کی گولیاں لیں باہر چارپائی منگوا کر دھوپ میں لیٹ گیا اللہ نے کیا دس پندرہ منٹ میں افاقہ ہو گیا
ٹویٹر پر لکھا کہ عمر چھوٹی ہو لمبی گزرے ایمان کی سلامتی کے ساتھ
آج کل فیس بک نے مجھے بلاک کر رکھا ہے کہتے ہیں کہ آپ نے کمیونٹی گائیڈ لائنز کی خلاف ورزی کی ہے۔اور آپ تواتر سے یہ کام کر رہے ہیں
پتہ نہیں کیا کرم کرتا ہوں ہر بار مجرم ٹھہرایا جاتا ہوں۔ہم نے بھی اپنے سارے دوست تعلق فیس بک آئی ڈی کی ٹوکری میں رکھ چھوڑے ہیں۔ٹویٹر پر گزارا کر رہا ہوں۔یہاں آج کل چائینہ سے آئے ہوئے طلبہ کا شور مچا ہوا ہے ان کی حالت زار دیکھ کر دل دکھی ہوتا ہے۔یہ پاکستان بھی کیسا ملک ہے کہ غربت غربت کا شور مچاتا ہے اور اپنے طلبائ پر لاکھوں ڈالر لگا کر انہیں باہر جانے دیتا ہے جہاں پہنچ کر وہ نت نئی مصیبتوں کا شکار ہو جاتے ہیں ۔بعد میں انہی طلبائ کو ایک اور امتحاںن میں ڈال دیتا ہے کہ PMDC ان کا امتحان کے۔زندگی امتحان لیتی ہے یہ تو سنا تھا لیکن ان طلبائ کی جان لینے میں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل ایسوسی ایشن موجود ہے۔
آج کل کرونا کے مارے ہمارے یہ طلبائ کن کی تعداد ہزاروں میں ہے یہ لوگ چین سے کوئی دو سال پہلے پاکستان آئے اور محصور ہو کر رہ گئے نہ یہ واپس کا سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے لیے یہاں تعلیم کا بندوبست ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان کے ٹیسٹ لے کر داخلہ دیا جاتا اور وہ باقی کی تعلیم یہاں پاکستان میں مکمل کرتے۔یا اگر نہیں ہو سکا تو ان کی عزت سے واپسی کانکوئی بندو بست کیا جاتا
چین ہمارا دوست ملک ہے اس کی دوستی کی مثالیں دی جاتی ہیں ہمالہ سے بلند اور شہد کی طرح اس میٹھی دوستی کا کیا فائیدہ کہ وہ اپنے تعلیمی اداروں کے طلبائ کو واپس نہیں لے رہا۔پاکستان اور چین کی اس دوستی کا اک امتحان یہ طلبائ ہیں جو سوشل میڈیا پر چیختے چلاتے نظر آتے ہیں
یہ لوگ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہمیں چین واپس بھیجا جائے۔مجھے نہیں معلوم کہ حکومت پاکستان نے یہ مطالبہ چینی حکام کے سامنے اٹھایا ہے یا نہیں لیکن ان طلبائ کی حالت زار ہمیں بتا رہی ہے کہ ،،کسے نے کوئی گل نئیں سنی،،
مجھے 1978 کے وہ دن یاد آ گئے شاہ خالد بن عبدالعزیز کا دور تھا ان گنت پاکستانی عمرے کے ویزے پر سعودی عرب میں مقیم تھے یہ غیر قانونی لوگ تھے جو تیل کے نکلنے کے بعد بحری اور ہوائی جہازوں پر بیٹھ کر عمرے ویزے پر وہاں پہنچے تھے۔پاکستان کی زمام اقتدار جنرل ضیائ الحق کے پاس تھی اس وقت امت مسلمہ کے اتحاد کا شور تھا۔ضیائ الحق امت کے لیڈر کانے جاتے تھے۔اپ حیران ہوں گے 1978 میں انہوں نے سعودیوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ ان مسلمانوں کو ویزہ دیں اور تاریخ نے دیکھا کہ اسی وقت مسلمانوں کے لیے مسلم 44 ویزے کا اجرائ ہوا۔
لاکھوں مسلمان اس ویزے سے مستفید ہوئے ضیائ الحق شہید کا یہ کارنامہ شائد دنیا کو یاد نہیں یہ وہی لوگ تھے جو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں وہاں گئے تھے۔ان لوگوں کو وہیں سعودی عرب کے اندر رہتے ہوئے کفیل ڈھونڈنے کی اجازت دی
ورنہ اس سے پہلے لوگ وہاں سے ویزہ خرید کر مصر اور بحرین جا کر لگوا کر واپس آتے تھے
میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چین ہمارے طلبائ کی زندگی آسان کیوں نہیں کرتا کیا اس کے کالجوں اور یونیورسٹیوں نے پاکستان کے طلبائ سے رقم نہیں لی۔
ہم پاک چائینہ کوریڈور کی زنجیر میں جکڑے ہوئے دوست ہیں ہمارے فائدے ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔کیا اس ایک چھوٹے سے مسئلے کو ہماری وزارت خارجہ نہیں حل کر سکتی ؟
میرا خیال ہے یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں جو شاہ محمود قریشی کی چھوٹی سی کوشش سے حل نہ ہو سکے۔
اسی طرح سعودی عرب سے لاکھوں پاکستانی یہاں آ کر پھنس کے رہ گئے ہیں ان کی نوکریاں تیل ہو گئی ہیں جن کے کاروبار تھے ان پر قبضہ ہو گیا ہے۔انہیں وہاں سعودی عرب میں جانے کی براہ راست اجازت نہیں ہے یہ لوگ براستہ دبئی جا رہے ہیں پہلے بحرین،افغانستان کینیا سے ہو کر یہ لوگ سعودی عرب جاتے ہیں۔مان لوگوں کو دبئی میں پندرہ دن رہنا ہو گا۔پھر یہ لوگ سعودی عرب میں داخل ہوں گے۔ہمارے ویکسین سسٹم پر ہمیشہ کی طرح نواز شریف نے چوٹ لگائی ہے لیکن اس کا بھی حل تھا کیا سعودی عرب اپنے ہاں قرنطینہ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا تھا؟ غلیل کے ہاس محلہ قرنطینہ تو ملک عبدالعزیز کے زمانے سے موجود ہے۔
پاکستانی سعودی عرب میں بھی رینگ رینگ کر جا رہے ہیں اور چائینہ میں پڑھنے والے طلبائ کا تو کوئی سن ہی نہیں رہا۔
نہ سعودی عرب کے فرماں رواں جو پاکستان کے ،،سفیر،، کہلوائے انہوں نے کچھ کیا اور نہ ہی ہمیں ہمالہ سے بلند شہد سے میٹھی دوستی کی کوئی مٹھاس نظر آئی