بھارت کی بقا اور سلامتی کو اورناچل پردیش میںخطرہ
کرے گا اور اب 72سال بعد چین اور بھارت کا متنازع علاقہ اروناچل پردیش جس پر بھارت نے اپنے عالمی اتحادیوں کی مدد سے قبضہ کر رکھا تھا واپس چین میں شامل کرنے کے لیے تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں پتا چلا ہے کہ پورے علاقے کی سب سے بڑی اور بلند چوٹی یانگ زی پر دو سے تین ہفتے میں قبضہ کر لے گا جس بعد چین کی بالادستی لائن آف ایکچوئل کنٹرول ایل اے سی پر قائم ہو جائے گی۔ اس چوٹی کی اونچائی 17ہزار فٹ ہے اور یہاں سے چین کو بھارت کی سرحد لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر نظر رکھنا آسان ہوگا۔
جسارت کے11ستمبر 2020 کے کالم چینیوں کی اروناچل پردیش آمد میں لکھا تھا کہ: بھارت ابھی چینی وزیرِ دفاع جنرل وی فینگ سے مذاکرات کا دکھ سمیٹ بھی نہیں پایا تھا کہ اچانک بھارتی میڈیا پر یہ خبریں بریکنگ نیوز کے طور پر سامنے آنے لگیں کہ ارونا چل پردیش میں چینی افواج داخل ہو رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اروناچل پردیش پر چین کو فوج کشی کی اس قدر جلدی کیوں تھی اس کا سِرا گزشتہ سے پیوستہ ہفتے میں لداخ پر ایک تبتی کی ہلاکت کے بعد سامنے آیا۔ بھارت کے ساتھ امریکی سی آئی اے 1948 سے ایک تبت پلان پر عمل کر رہی ہے لیکن یہ بات ابھی چھپی ہوئی تھی کہ بھارت ایک لاکھ 50ہزار تبتی افراد پر مشتمل اسپیشل فرنٹیر فورس تیار کر چکا ہے۔ اس راز کے کھلتے ہی چین نے اس خدشہ کے پیشِ نظر کہ کہیں چینی اور بھارتی تبتی افواج کے ٹکراو سے چین میں موجود تبتی بھی چین کے خلاف نہ ہو جائیں فوری طور پر اروناچل پردیش پر حملہ کردیا۔ اروناچل پردیش کا رقبہ 90ہزار اسکوائر کلو میٹر اور آبادی 14لاکھ ہے۔ قبل ازیں 3ستمبر کو چینی وزیرِ دفاع جنرل وی فینگ اور بھارتی وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ سے مذاکرات بھی بھارت کے لیے ایک بڑی سفارتی شکست تھی جس کے 48گھنٹوں بعد ہی بھارت کو ارونا چل پردیش جیسے سانحے کا سامنا کرنا پڑا۔
لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے تنازعے پر 1962 میں چین اور بھارت کے درمیان جنگ شروع ہوئی۔ اس وقت چینی فوج نے آدھے سے زیادہ اروناچل پردیش پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس کے باوجود چین نے یکطرفہ سیز فائر کا فیصلہ کیا اور ان کی فوج میکموہن لائن سے پیچھے چلی گئی۔ چین کے مطابق اروناچل پردیش بھارت کا نہیں بلکہ جنوبی تبت کا حصہ ہے۔ اسی لیے چین اروناچل پردیش میں بھارت کے سرکاری دورے پر اعتراض کرتا ہے، چاہے وہ تبت کے مذہبی رہنما دلائی لاما کا ہو یا کسی بھارتی وزیر اعظم کا۔ 2014 کے انتخاب میں فتح کے بعد نریندر مودی نے اس ریاست کا دورہ کیا تھا جس پر چین نے اعتراض کیا تھا۔
1914 میں جب انڈیا پر برطانوی راج قائم تھا اس وقت شملہ کے مقام پر بھارت اور تبت کی حکومتوں کے درمیان معاہدہ طے پایا تھا۔ اس معاہدے پر برطانوی حکومت کے ایڈمنسٹریٹر سر ہینری میکموہن اور تبت کی حکومت کے ایک نمائندے نے دستخط کیے تھے۔ جس میں بھارت اور تبت کے درمیان سرحدیں طے ہوگئی تھیں۔ بھارت 1947 میں اور چین 1949 میں آزاد ممالک بنے لیکن چین نے شملہ معاہدہ مسترد کیا اور کہا کہ تبت پر چین کا حق ہے اور وہ ایسے کسی معاہدے کو تسلیم نہیں کرے گا جو تبت کی حکومت کے کسی نمائندے نے طے کیا ہو۔ بھارت میں پہلی بار 1938 میں میکموہن لائن کو نقشے میں برطانوی راج کے دوران ظاہر کیا گیا۔ جبکہ نارتھ ایسٹ فرنٹیئر صوبے کا قیام 1953 میں عمل میں آیا۔ 1986 میں انڈین فوج کو اروناچل پردیش میں سامدرونگ چو کے مقام پر چینی فوج کی سرگرمیاں نظر آرہی تھیں۔ جس کے بعد بھارتی فوج اس علاقے میں متحرک ہوگئی اور اپنی نفری بڑھا دی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب بھارت اور چین کے درمیان جنگ کا خدشہ بڑھ گیا تھا۔ یہ معاملہ اس وقت ٹھنڈا پڑگیا جب بھارت کے وزیر خارجہ نارائن دت تیواری بیجنگ کے دورے پر گئے تھے اور دونوں ملکوں کی فوج کے درمیان پہلی فلیگ میٹنگ رکھی گئی۔ بھارت کی سازشوں کی وجہ سے اروناچل پردیش پہلی مرتبہ 1987 میں ایک الگ ریاست بنا دیا گیا۔ 1972 تک اسے نارتھ ایسٹ فرنٹیئر ایجنسی کہا جاتا تھا۔ 20 جنوری 1972 میں اسے یونین علاقے کی حیثیت ملی اور اروناچل پردیش کا نام رکھا گیا۔ ریاست میں مشرقی انجا سے لے کر مغربی توانگ تک لائن آف ایکچوئل کنٹرول یا ایل اے سی پر 1126 کلو میٹر کے علاقے پر چینی سرگرمیاں جاری رہی ہیں۔ بیچ میں چین نئے نقشے بھی جاری کرتا رہا جس میں اس کے مطابق اروناچل پردیش کے کئی حصے اس کے ہیں۔
انڈیا اور چین کے درمیان پہلی مرتبہ تعلقات اس وقت خراب ہوئے جب 1951 میں چین نے تبت پر حکمرانی شروع کی۔ چین کا کہنا تھا کہ وہ تبت کو آزادی دے رہا ہے۔ دریں اثنا بھارت نے تبت کو ایک الگ ملک تسلیم کیا۔ ایسے کئی علاقے جہاں چین کی پیپلز لبریشن آرمی موجود ہے جن میں وادی دیبانگ شامل ہے۔ چین ایل اے سی پر بھی اپنی موجودگی کو بڑھا چکا ہے۔ پاکستان کے خلاف اپنی ساری جنگی صلاحیت کو بالاتر بتانے والے بھارت کو اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ بھارت نے جن ریاستوں پر قبضہ کر رکھا ہے ان پر اس کے دن گنے جاچکے۔ بھارت کی بقا اور سلامتی کو اورناچل پردیش میں خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔
چین 1962 میں اتنا طاقتور نہیں تھا جتنا آج ہے۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ بھارت اب 1962 والا نہیں رہا۔ ساتھ ہی چین کو بھی یہ احساس ہے کہ بھارت کی فوجی قوت اب اتنی کمزور نہیں رہی۔ لیکن چین بدھ مت کے مذہب کو قابو میں رکھنے کے لیے توانگ کی خانقاہ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ یہ جگہ 400 سال پرانی اور اس کے بارے میں خیال ہے کہ چھٹے دلائی لاما 1683 میں یہاں پیدا ہوئے تھے۔ اس لیے اروناچل پردیش کے لوگوں کو چین میں داخل ہونے کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں۔