بائے بائے تحریک انصاف”

اس وقت ملک میں مہنگائی عروج پر ہے غریب آدمی کا جینا تقریباً ناممکن ھوچکا ہے بجلی,گیس پٹرول, ڈیزل اور اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں چینی کی قیمت 160 روپے کلو تک پہنچ گئی ہے گھی آٹا,دالیں الغرض ہر چیز کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے لیکن وزیراعظم اور ان کے وزرائ تاویلیں پیش کررہے ہیں کہ اس ملک میں اتنی مہنگائی نہیں ہے جتنی دوسرے ممالک میں ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزرائ اس ہوشربا مہنگائی کا ذمہ دار کبھی کورونا کو دیتے ہیں تو کبھی اپوزیشن کو مئورد الزام ٹھہراتے ہیں لیکن اس الزامات کی سیاست میں غریب عوام بیچاری رل گئی ہے تبدیلی کا مزہ لینے والی عوام کو تحریک انصاف کی حکومت نے دن میں تارے دکھا دیے ہیں۔
حکومت کا چوتھا سال شروع ھونے کو ہے اور اب تک تحریک انصاف کچھ بھی ڈلیور کرنے میں مکمل ناکام نظر آئی ہے کرپشن فری پاکستان کا نعرہ لیکر اقتدار میں آنیوالوں کے دور حکومت میں کرپشن 300 گنا بڑھ چکی ہے پچھلی حکومتوں میں کرپشن منظم تھی چھپ چھپا کر وصولیاں کی جاتی تھیں مگر تبدیلی سرکار کے آتے ہی سب ڈر ختم ھوگیا اور کرپشن سرعام ھوگئی۔
کون سا ایسا محکمہ ہے جو اس وقت کرپشن سے پاک ہے اداروں کو پاؤں پر کھڑے کرنیوالوں نے ادارے تباہ کرکے رکھ دیے۔
عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھر کا واعدہ کیا جو صرف واعدہ ہی رہا۔ قانون کی بالادستی اور امیر و غریب کیلئے یکساں قانون کا نعرہ لگانے والی عمران حکومت میں امیر,
امیر تر ھوتا گیا جبکہ غریب اور دیہاڑی دار طبقہ غربت اور مہنگائی کی چکی میں پس کر رہ گیا کورونا وبائ کے دوران غریب مزدور کو ریڑھی لگانے کی اجازت نہیں تھی جبکہ امیر کی فیکڑیاں ایک منٹ کیلئے بھی بند نہیں ھوئیں غریب فاقہ کشی کی وجہ سے خود کشیاں کررہا تھا جبکہ امیر مہنگے ترین نیوز چینل خرید رہے تھے ہاؤسینگ سوسائٹیاں بنا رہے تھے بنک خرید رہے تھے عمران خان پاکستان کی تاریخ کے غیر مئوثر ترین وزیراعظم جبکہ تحریک انصاف کی حکومت انتہائی کمزور حکومت ثابت ھورہی ہے حکومت کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ ایک ڈپٹی ڈائریکٹر ایک وفاقی وزیر کی بات نہیں مانتا,تحریک انصاف کی سوا تین سالہ حکومت میں بیوروکریسی کی بدمعاشی عروج پر پہنچ چکی ہے کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ یہ لولی لنگڑی حکومت خود بیساکھیوں پر ہے کابینہ تو دور کی بات تحریک انصاف کے وزرائ آپس میں متحد نہیں ہیں جسکی وجہ سے بیوروکریسی کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل گیا ہے جس چیز کا وزیراعظم نوٹس لے لیں وہ اگلے دن مہنگی ھوجاتی ہے۔ وفاقی وزرائ کے بے تکے بیانات اور عوام مسائل کو حل نہ کرنے کی وجہ سے عوام میں ان کی مقبولیت ختم ھوتی جارہی ہے عوام کو کفایت شعاری کا درس دینے والی عمران حکومت اللوں تللوں اور عیش و عشرت میں پڑگئی ہے عوام کو کبھی ایک روٹی کھانے کی نصیحت کی جاتی ہے تو کبھی ٹماٹروں کی جگہ سالن میں دہی ڈالنے کی,کبھی گیس و بجلی کے اوقات مقرر کیے جاتے ہیں تو کبھی عالمی مہنگائی کا بہانہ تراشہ جاتا ہے الغرض پوری حکومت وزیراعظم سمیت اس وقت خواب غفلت کا شکار ہے ان کو یہ گمان ہے کہ شاید اب یہ اقتدار صدا ھمارا رہے گا۔ایسا بالکل نہیں ہے وقت کبھی کسی کی میراث نہیں رہا اور صدا بادشاہی نہیں رہتی وقت پلٹا کھاتا ہے بادشاہ فقیر اور فقیر بادشاہ بن جاتے ہیں اسی لیے سیانے کہتے ہیں کہ آپ اپنے اچھے وقت میں کبھی کسی کیساتھ برا سلوک نہ کریں ورنہ آپ کے برے وقت میں لوگ آپ کیساتھ بہت برا کریں گے تحریک انصاف جو بیج بوئے گا وہ وہی ہی پھل کھائے گی جو اس نے بویا ھوگا۔
اپوزیشن کو چور ثابت کرتے کرتے تحریک انصاف خود چور بن گئی وزیراعظم عمران خان کو اس حد تک مفلوج کردیا گیا ہے کہ انہیں بدترین گورننس بھی اچھی نظر آتی ہے بلکہ ان کے ایسے کان بھرے گئے ہیں کہ وہ اب عوام کو ہی خراب سمجھنے لگ گئے ہیں کہ اس ملک کی عوام ہی ٹھیک نہیں ہے۔
وزیراعظم صاحب یہ عوام اگر اتنی بری ھوتی تو یہ آپ کو کبھی اتنا موقع نہ دیتی جتنا اس عوام نے آپ کو موقع دیا ہے آپ دوسرے ممالک کی مثال دیتے ہیں ناں کہ وہاں سب کچھ اچھا ہے اور عوام میں شعور ہے اگر یہی شعور پاکستانی عوام میں آگیا تو اس ملک میں کسی بھی چور لٹیرے کیلئے کوئی جگہ نہیں ھوگی اور تمام چور لٹیرے چھپتے پھریں گے کہ کہیں عوام سے سامنا نہ ھوجائے بس ایک دفعہ اس قوم میں شعور آ لینے دیں پھر دیکھیئے گا کہ دما دم مست قلندر کیسے ھوتا ہے۔وزیراعظم عمران خان اور تحریک انصاف کو حالات کا ادراک کرنا ھوگا کوئی ادارہ ایسا نہیں جو زبوں حالی کا شکار نہ ھو عوامی مسائل جوں کے توں ہیں ریاست مدینہ اور حضرت عمر کے دور خلافت کی مثالیں دینے والی عمران حکومت نے عوام پر اپنے دروازے بند کردیے ہیں اب اگر عوام اپنے مسائل لیکر کسی وزیر کے پاس جاتے ہیں تو آگے سے کام کرنے کی بجائے کہا جاتا ہے کہ آپ ھمارے پاس نہ آیا کریں اوپر سے دھمکیاں دلواتے ہیں بیچاری عوام جو پہلے مسائل کا شکار ھوتی ہے وہ چپ چاپ واپس چلی جاتی ہے کہ ایویں کسی نئے رولے میں میں نہ پھنس جائیں۔ موجودہ کابینہ کا کوئی ایک وزیر ایسا بتائیں جو عوامی مسائل کی طرف توجہ دے رہا ھو جس جس نے عمران خان اور تحریک انصاف کو سپورٹ کیا انہوں نے ان کی ہی چیخیں نکلوا دیں کوئی ایک بندہ اس وقت ملک میں ایسا نہیں ہے جو ان سے خوش ھو,خان صاحب الیکشن کیمپئین شروع ھوچکی ہے تمام سیاسی پارٹیاں براہ راست عوام میں جانے کی تیاریاں کررہی ہیں اپوزیشن نے پی ڈی ایم کی شکل میں کمر کس لی ہے وہ ایک بار پھر میدان میں آچکی ہے پیپلزپارٹی جو پی ڈی ایم سے الگ ھوچکی تھی وہ دوبارہ پی ڈی ایم کا حصہ بننے جارہی ہے اور یہ سب ملکر مہنگائی کو جواز بناکر سڑکوں پر آرہے ہیں عوام جو کہ مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے لہذا وہ ان کو نجات دہندہ سمجھ کر بھرپور طریقے سے ان کا ساتھ دے گی کیونکہ عوامی سطح پر تحریک انصاف مقبولیت کھوچکی ہے دوسری طرف حکومتی اتحادی جماعتوں نے بھی تحریک انصاف کی مقبولیت گرتے دیکھ کر اس سے منہ موڑنا شروع کردیا ہے جس کی وجہ سے تحریک انصاف کی صفوں میں کھلبلی مچی ھوئی ہے وزیراعظم اس ساری صورتحال کے پیش نظر اسمبلیاں تحلیل کرسکتے ہیں اگر اسمبلیاں تحلیل ھوتی ہیں تو تحریک انصاف کے پاس عوام میں جانے کیلئے صرف یہی کارکردگی ھوگی کہ کورونا وبائ آگئی تھی جس کی وجہ سے ھماری معیشت نہ چل سکی اور دوسرا اپوزیشن اور اتحادی جماعتوں نے ہمیں چلنے نہ دیا لیکن اس بار عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ھوگا جسکی وجہ سے وفاق تو دور کی بات تحریک انصاف کیلئے پنجاب اور کے پی کے میں حکومت بنانا مشکل ھوجائے گا اور تحریک انصاف ماضی کا حصہ بن جائے گی۔
عمران خان اور ان کے نظریاتی کارکن خواب غفلت سے جاگیں اور عوامی مسائل حل کرنے میں دن رات ایک کردیں چاہے جیسے بھی کریں عمران خان عوام کو براہ راست ریلیف دیں مہنگائی کا خاتمہ کریں اور کرپٹ اور کام چور بیوروکریسی کو نکیل ڈالیں اور اپنے ان واعدوں کی تکمیل کریں جو انہوں نے 2018 میں عوام سے کیے تھے اگر عمران خان اور تحریک انصاف یہ سب کر گزرتے ہیں اور عوام کا اعتماد جیت لیتے ہیں تو شاید 2023 میں ان کو کامیابی مل جائے ورنہ یہ فرضی بیانیہ کسی بھی صورت عمران خان کو آئندہ الیکشن میں کامیابی نہیں دلاسکتا۔
یہ فیصلہ عمران خان اور تحریک انصاف نے کرنا ہے کہ وہ عوام کا اعتماد جیت کر آئندہ حکومت بنانے کو ترجیح دیتے ہیں یا پھر ھمیشہ کیلئے سیاست سے آؤٹ ھوتے ہیں یہ فیصلہ عمران خان اور تحریک انصاف نے کرنا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭