
ملبہ سمیٹنے کا موسم
حکومت اور افغانستان میں موجود تحریک طالبان کے درمیان مذاکرات اور ایک ماہ کی عارضی جنگ بندی کی تصدیق فریقین نے کر دی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان ایک انٹرویو میں ٹی ٹی پی اور بلوچ شدت پسندوں دونوں کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کرنے کا عندیہ دے چکے تھے۔ بلوچ نوجوانوں کی عسکریت صوبے کے بلوچستان کے علاقوں تک محدود تھی اور اس کا کوئی وسیع اور لمباچوڑا ایجنڈ نہیں تھا وہ اپنے وسائل اور زمین کے تحفظ کے نام پر بندوق تھامے ہوئے تھے۔ اس کے برعکس ٹی ٹی پی ایک پورے ملک میں اپنا حامی وہمدرد ذہن رکھتی تھی اور ملک بھر کے نوجوانوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ ان میں ماضی کے جہاد پسند حلقے اور ان کے اعزا واقربا خصوصیت کے ساتھ شامل تھے۔ افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد اس بات کے امکانات موجود تھے کہ بیس کیمپ سے محروم ہونے کے بعد اب افغانستان میں پناہ لیے ہوئے عناصر کے پاس ریاست کے ساتھ دورستی کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ پاکستان نے بھی برسوں اسی دن کی امید پر زخم کھائے اور چرکے سہے تھے مذاکرات اور معاہدے کی اطلاعات نے اب اس بات پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ ہے پاکستان حالات کے بیس سالہ بھنور سے نکلنے جا رہا ہے۔
نائن الیون کو دو عشرے سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے مگر جڑواں میناروں کا ملبہ اٹھانے کا عمل اب بھی جاری ہے۔ ان میناروں کا حقیقی ملبہ تو ساڑھے تین ہزار لوگوں پر گرا تھا مگر اس کا معنوی ملبہ پوری دنیا میں بکھر کر رہ گیا تھا کانچ کے کسی برتن کی طرح کرچیاں پوری دنیا کے پائوں میں کسی نہ کسی انداز سے چبھ کر رہ گئیں۔ مسلمان دنیا خصوصیت کے ساتھ پابہ لہو ہو کر رہ گئی۔ کئی ممالک اقتدار اعلی سے محروم ہو گئے تو کئی ایک کی آزادی کی گنجائش مزید سکڑ کر رہ گئی۔ بہت سے ملکوں میں مسلح جتھوں نے جنم لیا اور ناراض عناصر کی کہاں کمی ہوتی ہے۔ ہر ملک ومعاشرے میں حکمران طبقات کی پالیسیوں کا ستایا ہوا طبقہ موجود ہوتا ہے جس کے ہاتھ انتقام، غصے اور ردعمل میں کسی ہتھیار کو کسی مددگار ہاتھ کو تھامنے کو ترستے ہیں۔ نائن الیون کے بعد مسلمان ملکوں میں اس ہاتھ کو تھامنے والے کئی خفیہ ہاتھ سامنے آتے چلے گئے۔ لیبیا سے عراق، افغانستان سے پاکستان، ترکی سے شام تک مسلح جھتے ریاست کی طاقت کو للکارتے چلے گئے۔ اس شورش کے پیچھے مسلمان دنیا کی تشکیل جدید کا خبط تھا۔ سی آئی اے زدہ مغربی دانشور طبقہ اس بات پر مصر تھا کہ یہ مسلمان دنیا کے نقشے اور ان کے اندر قائم شخصی حکمرانیوں پر مبنی نظام کو بدلنے کا مناسب وقت ہے۔ جس کے بعد یک قطبی دنیا کا ایک نیا ورلڈ آرڈر متعارف کرانے میں آسانی رہے گی۔ مسلمان دنیا جنگ وجدل سے نکل کر مغربی جمہوریت کی اسیر ہوجائے گی۔ اس ورلڈ آرڈر کی سوچ نے جن مسلمان ملکوں کو لہو لہو کردیا پاکستان ان میں شامل تھا۔
نائن الیون کے حملے کے بعد بلوچستان میں برسوں سے ناراض چلے آنے والے قبائلی نوجوان پہاڑوں پر چلے گئے اور اس لہر پر نواب اکبر بگٹی جیسی معروف سیاسی شخصیت بھی سوار ہو گئیں۔ انہوں نے حالات کے بھنور میں پھنسے ہوئے ایک شخص کے انداز میں ایک انٹرویو میں کہا کہ بلوچستان پر یہ سارا عذاب گوادر کی بندر گاہ کی وجہ سے آیا ہے۔ گوادر کی بندرگاہ امریکا اور چین کے درمیان فتنے کی بنیاد بن گئی اور یوں اس کراس فائر میں پاکستان آگیا۔ اسی دوران قبائلی علاقوں اور افغانستان کی عسکریت کے اندر سے کائونٹر ملٹنسی برآمد کرنے کی کامیاب حکمت عملی اپنائی گئی۔
اس پالیسی کو کامیابی اس وقت حال ہوئی جب امریکا نے ایک طرف پاکستان پر دبائو ڈال کر افغانستان اور پاکستان کے عسکریوں کے خلاف آپریشن کرانے کے لیے دبائو ڈالنا شروع کیا پاکستان نے کاررائیاں شروع کیں تو اس کے نتیجے میں پاکستان ایک عجیب دلدل میں دھنس گیا۔ کل کے دوست آج کے دشمن بنتے چلے گئے۔ پاکستان جوں جوں امریکی فرمائش اور دبائو پر ماضی کے تراشیدہ ہیروز کے خلاف کارروائیاں کرتا ہے
کائونٹر ملٹنسی کو اسی انداز میں تقویت ملتی چلی گئی اور یوں ایک طرف بلوچ نوجوان ریاست پر ٹوٹ پڑے تو دوسری طرف افغانستان کے جہادی سسٹم سے وابستہ نوجوانوں نے اپنی بندوقوں کا رخ امریکا اور بھارت سے موڑ کر پاکستان کی جانب کرلیا۔ تحریک طالبان پاکستان کی تخلیق اسی متضاد اور مخمصے سے بھرپور پالیسی سے ہوئی۔ جوں پاکستان پر دبائو بڑھایا جاتا پاکستان مخالفانہ حملوں کی زد میں آجاتا۔ امریکا ڈرون مارکر غائب ہوجاتا اس کا بدلہ امریکا کے اتحادی کی پہچان رکھنے والے پاکستان سے لیا جاتا۔ اس عجیب اور پراسرار پالیسی نے پاکستان کو خوں رنگ بنا دیا۔ دہشت اور وحشت کی ایسی داستانیں رقم ہونے لگیں کہ جن کا تصور کرکے بدن میں خوف کی جھرجھری پیدا ہونے لگتی ہے۔ امریکا پاکستان کو طالبان کا اور ٹی ٹی پی امریکا کا اتحادی قرار دیتی رہی۔ اس حکمت عملی نے پاکستان کو دنیا کا خطرناک ترین ملک بنادیا۔ سیاحت، صنعت، امن، معیشت سمیت ہر چیز تباہ ہوگئی اور پاکستان کو دیوالیہ اسٹیٹ قرار دینے کی باتیں عام ہونے لگیں۔ یوں دو عشرے بعد پاکستان میں امن کی امید نہایت حوصلہ افزا ہے جس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے مگر حکومت پاکستان کے لیے یہ اب بھی تنی ہوئی رسی پر سفر ہے۔ تحریک طالبان پاکستان ان بیرونی قوت کا پاکستان کے خلاف ایک لیوریج ہے جو اب بھی پاکستان کو چین کی قربت سے دور کرکے اپنے راستے اور ایجنڈے پر چلانا چاہتے ہیں اس لیے ان قوتوں کی خواہش ہوگی یہ جنگ بندی اور معاہدہ عارضی ثابت ہوا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
ٔ