سول حکومتیں اور بلدیاتی انتخابات

ہمارے ملک میں سول حکمرانی کے دوران بلدیاتی انتخابات کرانے کی کوئی قابل تعریف تاریخ نہیں ہے اگر ہم ماضی کا جائزہ لیں تو جب جب ملک میں فوجی حکومتیں رہی ہیں تب تب ملک میں بلدیاتی انتخابات پابندی سے ہوتے رہے ہیں۔ سول اور سیاسی جماعتوں کی حکمرانی کے دوران بلدیاتی انتخاب سے کیوں گریز کیا جاتا رہا اور مارشل لا کے دور میں کیوں پابندی سے بلدیاتی انتخابات کرائے جاتے رہے ان کی کئی وجوہ ہیں پہلے دیکھتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں کیوں بلدیاتی انتخاب کو ٹالتی رہتی ہیں لیکن ان وجوہ پر غور کرنے سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ کب کب ملک میں بلدیاتی دور رہا۔ جب ملک میں 1956کا دستور بن کر تیار ہوا اور اس کے تحت یہ فیصلہ ہوا کہ پہلے بلدیاتی انتخابات کرا لیے جائیں اس کے بعد ملک میں اس دستور کے تحت عام انتخابات کرائیں جائیں گے بلدیاتی انتخاب کا یہ مرحلہ جب پورے ملک میں خوش اسلوبی سے مکمل ہو گیا اور ایک طرح سے ملک میں جمہوری سفر کا آغاز ہوگیا دوسری اہم بات یہ ہوئی کہ اس انتخاب میں بڑے شہروں میں دینی جماعتوں کچھ قابل ذکر کامیابیاں حاصل کی تھیں، تو پھر کچھ ہمارے طالع آزمائوں کو ملک کا یہ جمہوری سفر اور جمہوریت کے گلدستے میں دینی تنظیموں کی کلیوں کا چٹکنا اور پھولوں کا مہکنا پسند نہیں آیا اور 16اکتوبر 1958کو ملک میں مارشل لا نافذ کردیا گیا اور جمہوریت کی منزل دور ہوگئی۔
جنرل ایوب خان نے پہلے 1962میں اپنا دستور نافذ کیا گو کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے اس دستور کو مسترد کردیا تھا اور انقلابی شاعر حبیب جالب کی یہ نظم بہت مشہور ہوئی جس کا عنوان تھا کہ ایسے دستور کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا، پھر اس دستور کے تحت 1964میں ملک میں عام انتخابات ہوئے جس میں محترمہ فاطمہ جناح ایوب خان کے مقابلے پر آئیں تمام سیاسی جماعتیں محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ تھیں اس میں ایوب خان نے بنیادی جمہوریتوں کا نظام متعارف کرایا جس میں پورے ملک میں چھوٹے چھوٹے حلقے بناکر بی ڈی ممبران کے انتخاب کرائے گئے اس میں جو لوگ منتخب ہو کر آئے وہ ایک طرف تو صدارتی انتخاب کے ووٹرز تھے اور دوسری طرف وہ عوام کے بلدیاتی مسائل حل کرانے کے حوالے سے عوامی نمائندے بھی تھے پھر یہ سلسلہ ایوب حکومت کے خاتمے کے بعد ازخود تحلیل ہو گیا۔
سقوط مشرقی پاکستان کے بعد جب بھٹو صاحب وزیر اعظم بنے تو انہوں نے اپنے پورے دور میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے۔ 1977 میں جب جنرل ضیا مارشل لا کے ساتھ برسراقتدار آئے تو انہوں نے اپنے ادوار میں تین مرتبہ 1979, 1983, 1987 پابندی سے بلدیاتی انتخاب کرائے پہلے دو انتخاب میں کراچی سے جماعت اسلامی کامیاب ہوئی اور دونوں مرتبہ مرحوم عبدالستار افغانی صاحب کراچی کے میئر رہے تیسری مرتبہ میں ایم کیو ایم کامیاب ہوئی اور فاروق ستار اس کے میئر تھے۔ 1988 میں بھاولپور میں طیارہ حادثے میں جنرل ضیا کی وفات کے بعد ملک میں عام انتخابات ہوئے بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بن گئیں 1990 میں کرپشن کے الزام میں ان کی حکومت ختم کردی گئی اسی سال دوبارہ انتخاب ہوئے اور نواز شریف جو اسلامی جمہوری اتحاد کے سربراہ تھے وزیر اعظم بن گئے، 1993 میں صدر غلام اسحاق خان نے آئین کی شق 58/2-B کے تحت ان کی حکومت ختم کردی اسی سال پھر عام انتخابات ہوئے اور ایک بار پھر پی پی پی کامیاب ہو گئی اور بے نظیر بھٹو دوبارہ ملک کی وزیر اعظم بن گئیں انہوں نے غلام اسحاق کی جگہ اپنی جماعت کے فاروق لغاری کو ملک کا صدر بنا لیا تاکہ آئین کی 58/2B کی شق ان کے اپنے پاس آجائے لیکن طاقت کے کھیل بھی بڑے عجیب ہوتے ہیں۔ 1996 میں فاروق لغاری نے اپنی ہی سیاسی جماعت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کردی پھر اس سال عام انتخابات ہوئے اور پھر بینظیر کی طرح نواز شریف دوسری بار ملک کے وزیر اعظم بن گئے تا آنکہ 1999 میں جنرل پرویز مشرف چیف ایگزیکٹیو بن گئے اور نواز شریف کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس طرح سے دیکھا جائے تو 1988 سے 1999 تک دونوں سیاسی جماعتیں یعنی پی پی پی اور مسلم لیگ دو دو مرتبہ برسراقتدار رہیں لیکن ان دونوں نے اپنے ادوار میں بلدیاتی انتخاب نہیں کرائے۔
جنرل مشرف نے اپنے دور میں دو مرتبہ بلدیاتی انتخابات کرائے جس میں بلدیاتی نمائندوں کو بہت زیادہ اختیارات اور مالی وسائل فراہم کیے گئے پہلے انتخاب میں کراچی میں جماعت اسلامی کامیاب ہوئی اور نعمت اللہ خان مرحوم میئر بنے جو 2000 سے 2005 تک اس منصب پر رہے اور انہوں نے کراچی میں ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے پھر دوسرے انتخاب میں ایم کیو ایم کامیاب ہوئی اور مصطفی کمال کراچی کے میئر بنائے گئے انہوں نے بھی اپنے دور کراچی میں اچھے ترقیاتی کام کرائے لیکن پھر یہ ہوا کہ 2008 میں مشرف صاحب نے استعفا دے دیا، ملک میں نئے انتخابات ہوئے پی پی پی کامیاب ہوئی اور آصف زرداری ملک کے صدر بن گئے جو 2013 تک رہے اسی سال دوسرے انتخابات ہوئے تو مسلم لیگ ن کامیاب ہوئی اور نواز شریف ملک کے تیسری بار وزیر اعظم بن گئے جو 2018 تک رہے اور اب آج کل عمران خان وزیر اعظم ہیں۔ جنرل مشرف کے بعد برسر اقتدار آنے والی دونوں سیاسی حکومتوں نے اپنے اپنے ادوار میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے، مجھے یہ یاد پڑتا ہے کہ نواز شریف کے دور میں پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے وہ بھی عدالت عالیہ کے حکم پر ہوئے۔
اب اس سوال پر آتے ہیں کہ سیاسی حکومتیں بلدیاتی انتخاب سے کیوں گریز کرتی ہیں اس کی ویسے تو کئی وجوہ ہیں اور اس پر الگ سے گفتگو کی ضرورت ہے لیکن مختصرا دو اہم وجوہ پر بات کرتے ہیں جو سیاسی جماعت مرکز اور صوبوں میں برسراقتدار ہوتی ہیں انہیں بلدیاتی انتخاب میں یہ خطرہ رہتا ہے کہ اس میں مخالف سیاسی جماعت نہ کامیاب ہوجائے کہ چونکہ بلدیاتی نمائندوں کا عوامی مسائل کے حوالے سے عوام سے قریبی رابطہ رہتا ہے رات دن لوگ مسائل کے حوالے سے اپنے نمائندوں سے رابطہ رکھتے ہیں اور یہ کہ ان کے پاس مالی وسائل بھی ہوتے ہیں اس لیے اگر مخالف سیاسی جماعت کا نمائندہ کامیاب ہوجاتا ہے تو اس علاقے میں حکومت پر فائز جماعت کے سیاسی اثرات کم ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔
دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں نظم و ضبط اور ڈسپلن کا فقدان ہے اس لیے کسی حلقے میں پارٹی کسی فرد کے بارے میں انتخاب لڑانے کا فیصلہ کرتی ہے تو اکثر اسی پارٹی سے وابستہ مخالف گروپ اپنا امیدوار محض اس ضد میں کھڑا کردیتا ہے کہ ہم چاہیں جیتیں یا ہاریں سامنے والے کو نہیں جیتنے دینا ہے اس طرح سیاسی جماعتیں انتشار کا شکار ہو جاتی ہیں اپنی جماعت کا شیرازہ بکھر جانے کے خوف سے سیاسی جماعتیں بالخصوص برسر اقتدار سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخاب سے گریز کرتی ہیں۔ خیبر پختون خوا میں 19دسمبر کو بلدیاتی انتخاب کے شیڈول کا اعلان کردیا گیا ہے۔ جس کور کمیٹی کے اجلاس میں بلدیاتی انتخاب کرانے کا فیصلہ ہوا ہے اس کی اکثریت نے اس انتخاب کے انعقاد کی مخالفت کی تھی لیکن عمران خان اپنا فیصلہ نافذ کیا پھر سب خاموش ہو گئے۔ فوجی حکومتیں کیوں پابندی سے بلدیاتی انتخابات کرانے کو ترجیح دیتی ہیں اس پر کسی وقت الگ سے تفصیل سے اظہار خیال کریں گے۔ان شا اللہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭