
اسرائیل کا نازک مقام
چند دن قبل اسرائیل کے فوجی افسران پریشان ہو کر بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔ جب انہیں اسٹاک ہوم یونیورسٹی میں لیکچر نہیں دینے دیا گیا۔ ان اسرائیلی فوجی افسران کو یونیورسٹی میں لیکچر دینے کے لیے بلایا گیا تھا لیکن عین وقت پر بی ڈی ایس تنظیم کے کارکن اپنے ہاتھوں میں اسرائیلی فوجیوں کی تصاویر لے کر اس ہال میں داخل ہوگئے جہاں یہ پروگرام ہورہا تھا۔ انہوں نے فلسطینیوں کے حق میں نعرے لگائے اور آخر کار اسرائیلی فوجی افسران کو وہاں سے بھاگ جانے پر مجبور کردیا۔ اگرچہ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے یونیورسٹی کی پولیس کو مظاہرین کے خلاف ایکشن لینے کے لیے کہا لیکن پولیس نے ایسا کرنے سے گریز کیا۔ بی ڈی ایس فلسطینیوں کی حمایت میں قائم ہونے والی ایک عالمی تحریک ہے جس کی زیادہ سرگرمیاں یورپی ممالک میں ہیں یہ تنظیم عالمی سطح پر اسرائیلی مصنوعات اور اسرائیل میں سرمایہ کاری کے بائیکاٹ کا مطالبہ زور و شور سے کرتی ہے۔ یوں تو اسرائیل کے بائیکاٹ کی تحریک پوری دنیا میں چل رہی ہے لیکن امریکا میں زور پکڑتی جارہی ہے۔ دوسری طرف امریکی ریاستوں نے اسرائیلی بائیکاٹ کی تحریک بی ڈی ایس کے حامی اداروں اور تنظیموں کے ساتھ سرکاری معاہدوں پر پابندی عائد کردی ہے تا کہ یہ تحریک اپنی موت آپ مرجائے۔ اس تحریک کی بنیاد 9 جولائی 2005 میں عمل میں آئی۔ اس کا مقصد فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات کی روک تھام کے لیے حکومت پر دبائو بڑھانا ہے۔ چند سال قبل امریکی حکومت نے اس تنظیم اور اس کے حامی اداروں کے ساتھ حکومتی تجارتی معاہدوں کو ممنوع قرار دے دیا تھا۔ 2017 تک کئی امریکی ریاستیں اپنی حدود میں بی ڈی ایس پر ایسی پابندیاں لگا چکے تھے۔ اسرائیلی حکومت مصنوعات کے بائیکاٹ سے پریشان ہے۔ اسرائیلی اس بائیکاٹ تحریک خاص طور سے بی ڈی ایس کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کرتے رہے ہیں۔ عالمی بائیکاٹ تحریک کے خلاف اسرائیل متوازی سوشل میڈیا اور دیگر اداروں کو استعمال کررہا ہے۔ اسرائیل انہیں فنڈ فراہم کررہا ہے تا کہ اس بائیکاٹ تحریک کو متنازع بنانے کے لیے اپنا اثرو رسوخ استعمال کریں۔ خاص طور سے بیرون ملک اسرائیل نواز ابلاغی اداروں اور صحافیوں (جو تقریبا سارے ہی ہیں) کی طرف سے اس تحریک مہم کے خلاف کام کرنے کے لیے فنڈ فراہم کرنے کے لیے زور ڈالا گیا ہے۔ اسرائیل اس بائیکاٹ تحریک سے اس حد تک پریشان ہے کہ اس کے لیے اس نے تحریک کو ناکام بنانے کے لیے عالمی ماہرین کی مدد طلب کی ہے۔ تل ابیب میں 2018 میں بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں اس تحریک کو ناکام بنانے کے طریقوں پر غور کیا گیا۔ یہ کانفرنس اسرائیلی وزارت برائے پلاننگ اور باہمی تعاون کی جانب سے منعقد کی گئی تھی۔ اس میں اسرائیل کے مرکزی لائرز فورم، بین الاقوامی جوڈیشل انسٹیٹیوٹ اور دیگر ادارے شامل تھے۔ عالمی ماہرین کی ٹیم بھی موجود تھی۔ یہ سب سرجوڑ کر اس لیے بیٹھے کہ اسرائیل کے بائیکاٹ مہم کو غیر موثر کیا جاسکے یا کم از کم متنازع ہی بنادیا جائے۔
2018 میں ہونے والی اس کانفرنس کے سب سے زیادہ اثرات عرب امارات میں نظر آرہے ہیں جب اماراتی وزرا اسرائیل کا اور اسرائیلی وزرا امارات کے دورے کر رہے ہیںمتحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان مشترکہ بحری مشقیں ہورہی ہیں یہاں تک کہ 30 جون 2021 میں دبئی میں اسرائیل کے قونصل خانے کا افتتاح بھی ہوگیا۔ اس سے قبل دونوں کے درمیان امن معاہدہ بھی ہوا۔ یہ 2020 کی بات ہے اس دن اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے عبرانی میں ٹوئٹ کیا کہ یہ تاریخی دن ہے۔ اسرائیلی بائیکاٹ مہم اسرائیل کے لیے معاشی اور تجارتی نقصانات کا باعث ہے۔ دوسری طرف ان اثرات کو کم کرنے کے لیے اسرائیل متبادل منڈیوں کی تلاش میں مشرق وسطی کا رخ کررہا ہے۔ اسرائیل کے سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ عالمی سطح پر بائیکاٹ کے اثرات کے ازالے کے لیے پورے مشرق وسطی
میں سیاسی عسکری اور اقتصادی شعبوں میں تو غیر معمولی سرگرمیاں شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ جس ملک پر اسرائیل کی بھرپور توجہ وہ ملک مصر ہے، ساتھ ہی قبرص اور یونان کو بھی تل ابیب اہم ترین میدان تصور کرتا ہے۔ معاشی میدان اسرائیل کے لیے نازک حیثیت رکھتا ہے۔ لہذا عالمی سطح پر بائیکاٹ کی تحریک اس کے لیے انتہائی پریشان کن ہے۔ اسی بنیاد پر اکتوبر 2019 میں اسرائیل نے بی ڈی ایس تحریک کے بانیوں میں سے ایک ایمن عودہ عمر برغوثی کی اسرائیلی شہریت ختم کرنے پر غور کیا۔ یاد رہے کہ اسرائیل فلسطین کے مقام پر ہے جہاں فلسطینی عرب رہتے ہیں۔ ایمن عودہ عمر البرغوثی ان ہی میں سے ہیں جو فلسطینی عرب ہیں۔ اس وقت یہ بات عام لوگوں کے سمجھنے کی ہے کہ اسرائیلی درندگی کو روکنے کے لیے اس کو معاشی اور تجارتی میدان کو (جو اس کا نازک ترین مقام ہے) نشانہ بنانا لازم ہے۔ اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیوں کا قتل عام کیا، معصوم بچوں کو چن چن کر نشانہ بنایا، گھروں، اسکولوں، اسپتالوں، مسجدوں کو تباہ کیا۔ فضائی بمباری کے نتیجے میں زمین بوس عمارتوں اور گھروں میں دبے بچے خواتین اور مردوں کی چیخیں اور نعشوں کے چیتھڑے اڑانے کا مشغلہ اسرائیل کا پرانا ہے۔ جسے وہ وقتا فوقتا دوہراتا رہتا ہے۔ کولڈ ڈرنک چاکلیٹ اور دیگر مصنوعات کا استعمال گویا اسرائیل کو اپنے مشغلہ کے لیے فری ہینڈ دینا ہی تو ہے عرب حکومتوں کے لیے صرف یاد دہانی قرآن ہی سے ہوسکتی ہے کہ اے لوگوں جو ایمان لائے ہو! ان لوگوں کو دوست نہ بنائو جن پر اللہ نے غضب فرمایا ہے، جو آخرت سے اسی طرح مایوس ہیں
جس طرح قبروں میں پڑے ہوئے کافر مایوس ہیں۔ (الممتحنہ آیت نمبر 3)