ظفر علی خان، ایک عہد ساز شخصیت

قانون قدرت ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے، ہر جھوٹ کے عارضی غلبے کے بعد سچ کی دائمی فتح ہے، ، ہر اندھیری رات کے بعد اجالا ہے، ہر ظلم کے بعد انصاف ہے۔ رات کی تاریکی جب اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو آسمان پر کچھ ستارے ابھر کر طلوع آفتاب کی نوید سنانے لگتے ہیں۔ اسی طرح برصغیر پاک و ہند میں جب مسلم سلطنت کا سورج غروب ہو گیا اور مسلمانوں پر ظلمت و محرومیوں کی اندھیری رات چھا گئی تو تب خدا نے اقبال، جناح، سر سید احمد خان، مولانا محمد علی جوہر اور ظفر علی خان کی صورت میں ایسے ستارے پیدا کئے جہنوں نے مسلمانوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنیوں سے منور کیا اور انہی کی کوششوں کے نتیجے میں وہ سلطنت برطانیہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی کہ جس میں کبھی سورج غروب نا ہوتا تھا۔
1857 کی جنگ آزادی کے بعد جب مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نا تھا تب رب باری تعالی نے 19 جنوری 1873 کو کوٹ مارتھ وزیر آباد میں سراج الدین احمد کے گھر ایک بیٹا پیدا کیا جس کا نام ظفر علی خان رکھا گیا۔ اس وقت کون جانتا تھا کہ یہ بچہ کل کلاں کو بڑا ہو کر سلطنت برطانیہ جیسی سپر پاور کو آنکھیں دکھائے گا اور کروڑوں کمزور و محکوم مسلمانوں کی آواز بنے گا۔
ظفر علی خان نے ابتدائی تعلیم مشن ہائی سکول وزیرآباد سے حاصل کرنے کے بعد سر سید کی قائم کردہ علی گڑھ یونیورسٹی سے گریجوایشن مکمل کی۔ وہاں علامہ شبلی نعمانی اور پروفیسر آرنلڈ جیسے بہترین اساتذہ کی شاگردی سے شرف حاصل کیا۔
ان مشہور اساتذہ کے علاوہ دیگر مشہور ہستیوں جن میں مولانا جوہر علی اور مولانا شوکت علی شامل ہیں، وہ علی گڑھ یونیورسٹی میں آپ سے ایک سال سینئر جب کہ بابائے اردو کہلائے جانے والے مولوی عبدالحق آپ کے ہم جماعت تھے۔ مولانا حسرت موہانی آپ کے جونئیر تھے۔
یونیورسٹی سے نکلنے کے بعد ہمارا آج کا نوجوان کیرئیر کی فکر کرتا ہے، اسی طرح اس زمانے کے نوجوان بھی تعلیم مکمل کرنے کے "صاحب بہادر” بننے کی کوششوں میں لگ جاتے تھے۔ مگر ظفر علی خان نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد فرنگیوں کی محکومی کی بجائے امت مسلمہ کی فکر کی اور سیاست و صحافت کا وہ رستہ چنا کہ جس میں بہت سی مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑتا اور مقصد کی تکمیل کی راہ میں ہر طرف کانٹے ہی کانٹے بکھرے پڑے تھے۔
مولانا نے وقت کے فرعونوں کو لکارا، سلطنت برطانیہ کے خلاف لکھا اور اس جرم کی پاداش میں کئی دفعہ جیل جانا پڑا۔ مختلف اوقات میں تقریبا 14 سال جیل میں گزارے۔ سلطنت برطانیہ کے خلاف اپنے جرائم کی گواہی وہ خود اپنے الفاظ میں یوں دیتے ہیں۔
میں خود ہی اپنے جرم کا ہوں معترف
ناحق وہ کر رہے ہیں میرے جرم کی تلاش
میرا گناہ یہ ہے کہ کیوں میں نے کر دیا
راز غلطی صد و پنجاہ سالہ فاش
مولانا ظفر علی خان ایک بے باک صحافی تھے۔ ان کی صحافت سچائی اور ظلم کے خلاف ڈٹ جانے والی صحافت تھی ۔ مولانا اپنی تقریروں اور تحریروں میں انگریزوں کی خوب مخالفت کیا کرتے۔بہت دفعہ ان کے اخبار کو بھی بند کر دیا گیا۔ بعض اوقات مالی وسائل اور اشتہارات کی کمی بھی اخبار کی بندش کا باعث بنی۔ان کے اخبار "زمیندار” پر مقدمات ہوئے۔اشاعت معطل ہوئی۔ علمی صحافت کا آغاز "دکن ریویو” نکال کے کیا۔
مولانا نے والد کی وفات کے بعد 1908 میں "زمیندار” کی ادارت کا منصب سنبھال لیا ۔ آپ نے زمیندار کی ادارت اس دور میں سنبھالی جب ہندوستان کے تین بڑے اخبار پرتاب، محراب اور وی بھارت ہندو مالکان کے پاس تھے اور ان میں مسلمانوں کی آواز شامل نہ تھی۔ ایسے دور میں اخبار نکالنا اور پھر بہت ہی کم عرصے میں اس کی اشاعت کا لاکھوں تک پہنچ جانا ہی مولانا کی قابلیت کا مظہر ہے۔ کتابوں میں آتا ہے کہ اس وقت "زمیندار” کی اشاعت صرف چند سو تک محدود تھی اور قیمت محض چار آنے تھی، مگر ظفر علی خان کی ادارت سنبھالنے کے بعد اس کی اشاعت ہزاروں بلکہ لاکھوں تک پہنچ گئی اور بعض اوقات یہ اخبار دو سے تین روپے میں بھی خریدا جاتا۔ ایک خریدتا اور کئی لوگ پڑھتے۔جو خود نا پڑھ سکتے تھے وہ کسی پڑھے لکھے کو معاوضہ دے کر اس سے پڑھوا کر سنتے۔ خواتین، مرد ،بڑے بوڑھے سب اخبار کی آمد اور اداریہ پڑھنے کا انتظار کرتے۔ وہ جاننا چاہتے کہ آج ظفر علی خان نے کس کو اور کیسے لکارا ہے۔ ان کے اداریے، ان کی اصطلاحات ضرور پڑھی جاتیں۔ زمیندار کی پیشانی پر یہ شعر لکھا ہوتا
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نا جائے گا
بعد میں اسی اخبار کی بدولت مولانا بابائے صحافت کہلائے۔ اسی اخبار سے بعد میں تحریک خلافت میں اہم کردار ادا کیا۔ تحریک پاکستان کے دوران مسلمانوں کے سیاسی شعور کی بیداری میں بھی اس اخبار نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اسی اخبار میں مولانا کی مشہور نظمیں شائع ہوئیں۔
مولانا ظفر علی خان کا کردار آج بھی صحافیوں کے لئے مشعل راہ ہے۔ ایک صحافی کو مولانا کی نظر میں کیسا ہونا چاہئیے، وہ لکھتے ہیں کہ
قلم سے کام تیغ کا اگر کبھی نہ لیا ہو
تو مجھ سے سیکھ لے فن اور اس میں بے مثال بن
مولانا نے اردو صحافت کو نیا اسلوب ہی نہیں دیا بلکہ ایک نئی زبان بھی دی۔ ان کے ذریعے سینکڑوں نئے الفاظ اردو زبان میں داخل ہوئے اور اس طرح رائج ہو گئے کہ لوگ بھول گئے کہ یہ لفظ کب اور کہاں سے آئے۔ اداریہ لکھتے وقت اس مسئلے کے پس منظر اور مستقبل کے امکانی پہلو کو پیش ںظر رکھتے اور مسئلے کے نشیب و فراز کا جائزہ لیتے ہوئے موافق و مخالف آرا کا تجزیہ بھی کرتے۔
مولانا ظفر علی خاں اپنی ذات میں صحافت کا اک مکمل ادارہ تھے۔ آج کے زمانے میں بھی اگر کوئی دیکھنا چاہتا کہ اداریہ کیسے لکھا جاتا ہے، وہ مولانا ظفر علی خان کو پڑھ لے۔ اگر کوئی نثر سیکھنا چاہتا ہے تو وہ ظفر علی خان کی نثر پڑھ لے، کسی کو اچھی شاعری پڑھنی ہے تو وہ ظفر علی خان کی کلیات کا مطالعہ کر لے۔
مولانا ظفر علی خان صرف ایک صحافی ہی نہیں بلکہ ایک مترجم، باکمال ادیب اور ایک بلند پایہ سیاست دان بھی تھے۔ زمانہ طالب علمی میں ہی مختلف کتابوں کے ترجمے کئے۔ انہوں نے رائیڈر ہیگرڈ کے شہرہ آفاق ناول The people of the mist کا "سیر ظلمات” کے نام سے اردو میں ترجہ کیا۔ مولانا شبلی نعمانی کی کتاب "الفاروق” کا اردو سے انگریزی میں ترجمہ کیا۔ ان کی کل تصانیف کی تعداد چوبیس کے قریب ہے جن میں "چمنستان” ، "خیالستان”، "بہارستان” اور "نگارستان”کو خاص مقام حاصل ہے۔ اس کے علاوہ "معرکہ مذہب و سائنس” بھی ایک نمایاں مقام رکھتی ہے۔
ظفر علی خان ایک اعلی پائے کے مقرر بھی تھے۔ تقریر کرتے تو مجمع دم بخود رہ جاتا اور ہوش آنے پر تالیاں اور زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھتا۔ یہ ظفر علی خان کا ہی کمال تھا کہ ان کی تقریر و تحریر کی بدولت سپر پاور کا خوف عوام دلوں سے نکلنے لگا۔
مولانا ظفر علی خان نے اپنی شاعری کو ملت اور عشق رسول کے لئے وقف کر دیا۔ ان کی لکھی ہوئی بہت سی نعتیں آج زبان زدعام ہیں۔ وہ لکھتے ہیں
جو فلسفیوں سیکھل نہ سکااور نکتہ وروں سے حل نہ ہوا
وہ راز اک کملی نے بتا دیا چند اشاروں میں
ایک انتہائی خوبصورت نعت کے اشعار جو آپ بھی بہت ترنم سے پڑھی جاتی ہے۔
وہ شمع اجالا جس نے کیا
چالیس برس تک غاروں میں
اک روز چمکنے والی تھی
سب دنیا کے درباروں میں
اور
دل جس سے زندہ ہے، وہ تمنا تمہی تو ہو
ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمہی تو ہو
مزید ایک جگہ لکھتے ہیں
نماز اچھی، روزہ اچھا، حج اچھا، زکوتہ اچھی
مگر میں باوجود اس کے مسلماں ہو نہیں سکتا
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی حرمت پر
خدا شاہد کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
مولانا نے قادیانیوں کے خلاف بھی نظمیں لکھیں اور 1953 میں قادیانیوں کے خلاف چلنے والی تحریک میں کردار ادا کیا۔ قادیانیوں کے خلاف ان کی نظموں کو "ارمغان قادیان” میں مرتب کیا گیا ہے۔
مولانا کے کچھ اشعار ایسے بھی تھے جو کہ اوروں کے نام سے منسوب ہوئے اور خوب مشہور ہوئے جیسا کہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
یہ شعر علامہ اقبال سے منسوب ہے جب کہ اس کے خلاق مولانا ظفر علی خان تھے۔
مولانا ظفر علی خاں کی بے نظیر اور دل و دماغ پر نقش ہو جانے والی شاعری کو خواجہ حسن نظامی نے الہام کا نام دیا تھا اور مولانا سلیمان ندوی تو ظفر علی خاں کو اردو کے صرف تین کامل شاعروں میں سے ایک تسلیم کرتے تھے۔ داغ دہلوی جیسے استاد اور باکمال شاعر کی یہ رائے تھی کہ پنجاب نے ظفر علی خاں اور اقبال کو پیدا کرکے اپنے ماضی کی تلافی کر دی ہے۔ سرسید، علامہ شبلی اور الطاف حسین حالی نے بھی اپنے اپنے انداز میں ظفر علی خاں کے کام اور صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے۔ شورش کاشمیری نے صحافت اور شاعری میں اپنے استاد ظفر علی خاں کو اقلیم انشا کے شہنشاہ اور میدانِ شعر کے شہسوار کا خطاب دیا تھا اور سب سے بڑھ کر خود مولانا ظفر علی خاں کے بے مثال اشعار ان کے کمال سخن کے گواہ ہیں۔مولانا محمد علی جوہر لکھتے ہیں کہ "ظفر علی خان صحافی سے زیادہ ادیب ہیں ، اور ان کے کلام میں جو تلخی ہے وہ سیاست کی ہے اور جو چاشنی ہے وہ ادب کی ہے” علامہ اقبال ان کے بارے یوں رقمطراز ہیں "ظفر علی خان کے قلم میں مصطفی کمال کی تلوار کا بانکپن ہے۔”

مولانا سیاست میں آئے تو اس میدان میں بھی کمال کر دیا۔ مسلم لیگ کے بانیوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ تحریک پاکستان کا تذکرہ مولانا کے ذکر کے بغیر ادھورا ہے۔ قائد اعظم کا ان کے بارے کہنا تھا کہ "مجھے اپنے صوبے میں مولانا ظفر علی خان جیسے دو چار آدمی دے دیں ، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی”
جب کہ جواہر لال نہرو کا کہنا تھا "یہ صحیح ہے کہ ہمارے بہت سے ساتھی سیاست میں مختلف راستہ اختیار کرتے چلے گئے۔ کچھ بھی ہو لیکن اس میں شک نہیں کہ مولانا ظفر علی خان غیر ملکی حکومت کے خلاف بڑی جوان مردی سے لڑتے رہے ہیں”
مولانا صرف ایک سیاسی راہنما، شاعر یا صحافی ہی نہیں بلکہ ایک عہد کا نام تھے۔ ایک ایسی نابغہ روزگار شخصیت کہ جن کے بغیر تاریخ پاکستان کا تذکرہ ادھورا رہتا ہے۔ ان کے تذکرے کے بغیر صحافت کا ذکر بھی ادھورا ہے اور ادب کا بھی۔ ان کے اشعار نے تحریک پاکستان کا پیغام گھر گھر پہنچانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ وہ لکھتے ہیں
دنیا میں ٹھکانے دو ہی تو ہیں، آذاد منش انسانوں کے
یا تخت جگہ آذادی کی، یا تختہ مقام آذادی کا

قیام پاکستان کے بعد مولانا لاہور مقیم ہوئے، اور تب بھی وہ حق پسندوں اور صحافیوں کے لئے آواز اٹھاتے رہے۔ لاہور میں رہ کر وہ باغ جناح میں سیر کرتے۔ گرمیوں کا موسم سردیوں میں گزارتے۔ بالآخر پچاس سال کی ہنگامہ خیز زندگی اور دس سال کی طویل علالت کے بعد 27 نومبر 1956کو وزیر آباد میں وفات پائی۔ ان کی نماز جنازہ مولانا عبدالغفور ہزاروی نے پڑھائی اور انہیں کرم آباد، وزیرآباد میں دفن کیا گیا۔ جہاں ان کا مزار آج بھی مرجع خاص و عام ہے۔

قوموں کے زوال کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک وجہ اپنے محسنوں اور اکابرین کو بھول جانا بھی ہوا کرتی ہے۔ اور آج ہم اپنے اکابرین کی تعلیم پر عمل پیرا نا ہونے کی ہی سزا بھگت رہے ہیں۔ ہمارا قومی المیہ یہ بھی ہے کہ شعرا و ادب کے نقادوں نے ظفر علی خان کی شاعری کو سمجھنا تو درکنار اس کا مطالعہ کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ اگر میں سچ کہوں تو ظفر علی خان ہی وہ واحد شخص تھے جنہوں نے تقریر و تحریر اور اداریہ لکھنے کا حق ادا کر دیا۔
ہم نے مولانا ظفر علی خان کو وہ مقام نہیں دیا جس کے وہ حقیقی معنوں میں حقدار تھے۔دور حاضر کے صحافی صحافتی اقدار کی پابندیوں اور اچھی صحافت کی پاسبانی کے دعویدار تو نظر آتے ہیں مگر قومی ہیرو کو یاد رکھنا مناسب نہیں سمجھتے۔ موجودہ نسل تو شاید ان کا نام تک نہیں جانتی۔ دور حاضر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری نوجوان نسل کو اپنے آبا کے کارناموں کے بارے میں بتایا جائے، ان کے بارے مضامین سلیبس کا حصہ ہونے چاہئیں بلکہ صحافت کے طلبا کو ایک پورا مضمون مولانا ظفر علی خان اور ان کے انداز تحریر و صحافت پر پڑھایا جانا چاہئیے۔ اور حکومتی سطح پر مولانا کی برسی منانے کا اہتمام کیا جانا چاہئے۔ اس سب کے باوجود اگر کوئی خوش آئند بات ہے تو وہ یہ کہ مولانا کے نام پر ” مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ” بھی کام کر رہا ہے جہاں باقاعدگی سے ہفتہ کے روز ایک ادبی و فکری نشست کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں مولانا کی شخصیت وخدمات کا ذکر کیا جاتا ہے۔