برطانیہ کس سمت جا رہا ہے؟

برطانیہ کے عوام پریشان ہیں کہ ان کا ملک اور حکمران کس سمت جا رہے ہیں۔ پچھلے دنوں وزیر اعظم بورس جانسن ملک کے تاجروں اور صنعت کاروں سے خطاب کے دوران اِدھر ادھر بھٹکتے رہے جس کے بعد ان کی صحت کے بارے میں تشویش ظاہر کی جا رہی ہے، گو ان کے ترجمان کا اصرار ہے کہ وہ پوری طرح صحت مند ہیں لیکن کابینہ میں ان کے قریبی ذرائع ان کی ذہنی کیفیت کے بارے میں مشکوک ہیں وجہ ان کے نزدیک ایک پریشانی نہیں بلکہ کئی پریشانیاں ہیں ان میں سب سے بڑی پریشانی بریگزٹ کی بنا پر ہے جس کی وجہ سے یورپ سے تعلقات منقطع ہونے کی وجہ سے معیشت پر خطرناک اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ بریگزٹ کے حامیوں نے یورپ سے ناتا توڑنے کے لیے ملک کی خود مختاری اور حاکمیت کا نعرہ بلند کیا تھا لیکن اب یورپ سے علاحدگی کے نتائج عوام کو بھگتنے پڑ رہے ہیں۔ یورپ سے ضروری اشیا کی رسد بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے اسٹورز میں شیلف خالی ہو گئی ہیں اور گرانی بڑھ رہی ہے۔ پھر فصلوں کی کٹائی کے وقت یورپ سے جو کارکن فصلیں کاٹنے کے لیے برطانیہ آتے تھے ان کی آمد بند ہو گئی ہے جس کی وجہ سے فصلیں خراب ہو رہی ہیں۔
ایک اور بڑی پریشانی بورس جانسن کے لیے کشتیوں کے ذریعے برطانیہ میں پناہ کے لیے آنے والوں کی ہے اور اس مسئلے کے حل میں وزیر داخلہ پرتی پٹیل کی ناکامی کی ہے۔ پرتی پٹیل اپنی ناکامی چھپانے کے لیے مضحکہ خیز تجاویز پیش کر رہی ہیں۔ ایک تازہ تجویز انہوں نے یہ پیش کی ہے کہ ان کشتیوں کو برطانیہ کے ساحل تک پہنچنے سے روکنے کے لیے سمندر میں مشینوں کے ذریعے اونچی اونچی لہریں پیدا کی جائیں۔ اس صورت میں کشتیاں بھی غرق ہوجائیں گی اور برطانیہ آنے والے بھی۔ وزیر داخلہ پرتی پٹیل کی ایک اور تجویز جس پر سخت ہنگامہ ہے وہ داعش کے دہشت گردوں کے بہانے برطانیہ میں آباد شہریوں کی شہریت منسوخ کرنے کے بارے میں ہے اور اس سلسلے میں انہیںکسی اپیل کا حق نہیں ہوگا۔ وزیر داخلہ کی اس تجویز کو نہ صرف متنازع اور انسانی حقوق کے منافی قرار دیا جارہا ہے بلکہ اسے فاشسٹ نسل پرستی کا مظہر کہا جارہا ہے۔
پرتی پٹیل کے اس بیان پر بھی بہت لے دے ہورہی ہے کہ برطانیہ میں پناہ لینے کے خواستگار دراصل مالی فائدہ اور رہائش کی سہولتوں کے لیے آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پناہ کے خواستگاروں کو پرانی خستہ فوجی بیرکوں میں رکھا جاتا ہے اور الاونس صرف ساڑھے انتالیس پونڈ ادا کیا جاتا ہے یہی نہیں ان کی درخواست کی منظوری میں کئی کئی سال لگ جاتے ہیں۔ پرتی پٹیل نے برطانیہ میں دہشت گردی کا الزام باہر سے آنے والے افراد پر لگایا ہے لیکن میٹرو پولیٹن پولیس کے اسسٹنٹ کمشنر میٹ جیوکس نے صاف صاف کہا ہے کہ برطانیہ میں دہشت گرد حملوں میں پناہ کے خواست گاروں کے مقابلہ میں اس ملک کے شہری زیادہ افراد ملو ث رہے ہیں۔
تازہ ترین اعدادو شمار کے مطابق اس سال کے اوائل میں ایک ماہ میں ایک ہزار افراد پناہ کے لیے برطانیہ آئے۔ یہ برطانیہ کی پرانی روایت ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ بورس جانسن اور ان کی وزیر داخلہ پرتی پٹیل برطانیہ کی اس روایت کو ملیا میٹ کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ برطانیہ کس سمت جا رہا ہے۔