فیقا ڈب کھڑبا !

ایک عرصہ بعد فیقا ڈب کھڑبا سے ملاقات ہوئی تو اس کی لش پش دیکھ کر حیران رہ گیا۔ بڑی سی گاڑی سے وہ ایسے اترا جیسے کوئی نو دولتیا اترتا ہے میں نے جب کئی سال پہلے اسے آخری بار دیکھا تھا تو پرانی موٹر سائیکل پر گھومتا اور پرانی چیزیں خرید کر بیچتا تھا۔ اس کے ایسے ہی چھوٹے موٹے کام کرنے کی خبر ملتی رہتی تھی۔ مگر اب یہ شان و شوکت دیکھ کر حیرانی ہوئی۔ میں نے اسے آواز دی تو اس نے مجھے ایسے چونک کردیکھا جیسے کسی سیٹھ کو اوئے کہہ کر بلا لیا ہو۔ خیر وہ مجھے پہچان گیا۔ میں نے پوچھا فیقے یہ کیا چکر ہے، کیا کر رہے ہو آج کل، کہنے لگا۔ دو نمبر کام وہ بھی سرعام،جعلی موبل آئل جیسے چھم چھم کرتی پائل، کبھی ڈالر کی سٹہ بازی، کبھی منی لانڈرنگ، کبھی قبضے شبضے تو کبھی چینی آٹے کی ذخیرہ اندوزی۔
کیا تمہیں کوئی روکنے والا نہیں؟
روکنے والے تو بہت ہیں لیکن ان کا دھندہ بھی ہماری وجہ سے چلتا ہے، شہر میں چلنے والی کھٹارہ ویگنوں سے جس طرح ٹریفک پولس اور موٹر وہیکل ایگزامینز حصہ لیتے ہیں، آنکھیں بند کرتے ہیں، اسی طرح ہمیں روکنے والے بھی یہی کرتے ہیں۔ ٹکے ٹوکری بکنے والوں کی اوقات ڈھول بچانے والے میراثیوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔
لگتا ہے کسی سیاستدان کے شاگرد ہو؟
توبہ کرو کوئی سیاستدان میرا استاد ہوتا تو میں کب کا پکڑا جاتا۔
پھر تمہارا استاد کون ہے؟
اس کو چھوڑو، پہلے یہ طے کرو میری طرح راتوں رات امیر کتنے بنے ہیں، جب یہ پتہ چل گیا تو میرے استاد کا بھی علم ہو جائے گا۔
تمہارا نام فیقا ڈب کھڑبا کیوں ہے؟
کیوں جی تمہیں اس نام پر کیا اعتراض ہے،کبھی عتیقہ اوڈوھو کے نام پر اعتراض کیا، کبھی مستنصر حسین تارڑ سے پوچھا اتنا مشکل نام کیوں رکھا، کبھی تیلی، بھنگی اور میراثی جیسے محنتی پیشوں سے جان چھڑا کر سردار، ڈوگر، سید، خان، مرزا، قریشی، رانے، نواب اور نجانے کیا کیا بننے والوں پر نظر ڈالی، اگر نہیں تو میرا نام آپ کو کیوں چبھتا ہے، کیا میں نے آپ کی دم پر پیر رکھ دیا ہے۔
” ارے نہیں میں نے تو بس ویسے ہی پوچھا تھا، اچھا یہ بتا، جعلی موبل آئل سے سفر شروع کر کے قبضوں، بلیک مارکیٹنگ اور منی لانڈرنگ کا سفر کیسے کیا، کوئی تو وجہ ہو گی۔
غربت اور بے روزگاری بھائی، تم تو جانتے ہی ہو جب نواں شہر میں گنڈیریاں بیچتا تھا تو بھتہ مانگنے والے آتے تھے۔ پھر ایک مہربان نے جو جعلی موبل آئل کا دھندہ کرتا تھا، اپنی طرف متوجہ کیا، شروع میں مشکل پیش آئی لیکن پھر کام چل نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے وارے نیارے ہو گئے، اب زندگی بہت آسان گزر رہی ہے، کیونکہ بھتہ لینے تو کوئی نہیں آتا، البتہ حصہ لینے والے ضرور آتے ہیں اور ان کا انداز بہت مودبانہ ہوتا ہے، مجھے انہیں ہڈی ڈال کر بہت سکون ملتا ہے۔مگر آپ اتنے کم عرصے میں ارب پتی کیسے بن گئے، آپ کے پاس تو ٹوٹی پھوٹی موٹر سائیکل تھی، پھر یہ پجارو اور مرسیڈیز کہاں سے آ گئیں؟
مجھے تو آپ نیب کے کوئی کھڈے لائن لگے ہوئے افسر لگتے ہیں مجھ سے تو آپ بہت کھل کھلا کر پوچھ رہے ہیں، آپ کو شہر کے وہ سیاستدان نظر نہیں آتے جو ایم او کالج کے پاس ویگنوں سے بھتہ لیتے تھے اور آج روٹری سے کستوری بن چکے ہیں، جو کل تک ویگنوں کے پائیدان پر لٹک کر سفر کرتے اور تھڑے پر بیٹھ کر حجامت بنواتے تھے، آج عالیشان بنگلوں، ہاسنگ سکیموں، پلازوں اور فیکٹریوں کے مالک ہیں، کیا یہ ان کے باپ کے چھوڑے ہوئے خزانوں کا کرشمہ ہے۔ جو سیاست کی بہتی گنگا میں نہا لے تو آپ کا مائی باپ بن جاتا ہے، اس پر نیب ہاتھ ڈالے تو جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے اور میرے جیسا معصوم ڈب کھڑبا یعنی چھ بچوں کا ابا، اپنی محنت اور دن رات کے فراڈ سے دولت کی دیوی کو اپنی طرف مائل کرے تو آپ کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگتے ہیں انصاف کرو انصاف، آخر اللہ کو جان دینی ہے۔
ڈب کھڑبا صاحب آپ تو خوامخواہ ناراض ہو گئے۔
آپ نے بات ہی ایسی کی ہے سیاست دانوں کو چھوڑیں، یہ باقی جو سرکاری افسر ہیں کبھی ان کے اثاثوں پر بھی غور کریں۔ ہوش ٹھکانے آ جائیں گے ان میں سے اکثریت ایسے افسروں کی ہے جو پہلے دن دفتر آئے تھے تو ویگن کا کرایہ تک مشکل سے ادا کیا تھا، چند ہزار روپے تنخواہ لیتے تھے جس سے بمشکل گھر کی دال روٹی پوری ہوتی تھی لیکن چند برسوں میں یہ لکھ پتی، پھر کروڑ پتی اور اب ارب پتی بنے ہوئے ہیں ایسے افسروں اپنی بگڑی شکلیں درست کرنے کے لئے لندن اور نیویارک سے بیوٹی بکس منگواتے ہیں ان کی بیویاں ایک لباس جب پہن لیں تو دوسری بار پہنتے ہوئے چھی چھی کرتی ہیں، ہمت ہے تو ان سے جاکر پوچھو کہ تنخواہ سے تو بمشکل گزارا بھی نہیں ہو سکتا پھر یہ تم نے پلاٹ، کوٹھیاں، بنک بیلنس اور پلازے کیسے بنا لئے۔
ڈب کھڑبا صاحب تمام سرکاری افسر تو ایسے نہیں ہیں۔
میں کب کہہ رہا ہوں کہ سب خراب ہیں اب میرے جیسا بھی تو آپ کو ٹاواں ٹاواں ہی ملے گا مگر ہیں تو سہی نا، پھر آپ میرے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں۔
کیا آپ کو ڈر نہیں لگتا، آج کل احتساب کا بہت شور ہے، چیئرمین نیب آئے روز پکڑ دھکڑ کی بات کرتے ہیں، وزیراعظم کہتے ہیں کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑیں گے، ایف آئی اے والے بھی ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔
اوبھائی میرا تجربہ ہے تجربہ احتساب صرف اوپر کی سیاسی ملائی تک رہے گا، دوسروں کو چھیڑے گا بھی نہیں وگرنہ کسے معلوم نہیں پوش کالونیوں میں کیسے کیسے نودولتیئے بیٹھے ہیں، اگر سیاست دانوں کی طرح ان سے بھی منی ٹریل مانگی جائے تو بغلیں جھانگنے لگیں۔ میں نے زندگی میں یہی سبق سیکھا ہے سیاست دان بن کر کرپشن نہ کرو سیاست سے باہر رہ کر پورا ملک بیچ کھا، کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھے گا۔ (یہ کہہ کر فیقا گاڑی پر بیٹھا اور نو دو گیارہ ہو گیا)