دو آبے کا بدو،بستی میں اجنبی،لشکر میں تنہا
کتاب کا نام توہارن کھیڈ فقیرا ہے جو گجرات اور میر پور کے سرحدی شہر کھڑی شریف کے صوفی شاعر میاں محمد بخش کی مقبول تصنیف سیف الملوک کے اس شعر سے لیا گیا ہے۔ جتن جتن ہر کوئی کھیڈے، ہارن کھیڈ فقیرا جتن دا مل کوڈی پیندا،ہارن دا مل ہیرا جیتنے کیلئے بازی تو ہر کوئی لگاتا ہے، اے فقیر (دنیا سے بے نیاز) تو ہارنے کیلئے بازی کھیل۔ کیونکہ راہِ سلوک میں جیتنے کا انعام تو صرف ایک کوڑی ہے لیکن ہارنے کا انعام ہیرا ہے۔ یعنی عظیم شخص وہ ہے جو دوسروں کو کامیاب دیکھنے کیلئے خود ہارتا ہے۔ یوں تو صاحبِ کتاب کی پوری زندگی اسی کھیل سے عبارت رہی ہے، لیکن کتاب کے اس بڑے عنوان کے ساتھ جو انہوں نے تین چھوٹے چھوٹے فقرے تحریر کئے ہیں، اس میں انہوں نے اپنی پوری زندگی سمو کر رکھ دی ہے دو آبے کا بدو دوآبہ دراصل دریائے چناب اور جہلم کے درمیان کا علاقہ ہے جس میں اس کا آبائی گائوں تھا۔ اس خطے کے رہنے والوں کو بدوئوں سے تشبیہ دینا دراصل ان متلاشی حق لوگوں سے رشتہ قائم کرنا تھا جو حجاز میں پھوٹنے والی سیدالانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی کی جانب کشاں کشاں چلے آئے تھے۔ بستی میں اجنبی ہر اس شخص کا استعارہ ہے جو شہر کی زندگی اور تہذیبِ نو میں اپنے اصولوں کی وجہ سے تنہا اور اجنبی نظر آتا ہے۔ لشکر میں تنہا دو طرح سے صاحبِ کتاب کی زندگی کی علامت ہے۔ ایک تو فوج میں ملازم تھا اور بغاوت کے جرم میں اس دور میں اٹک جیل میں قید رہا، جب پاکستان ضیا الحق کی سرکردگی اور امریکہ کی ہمرکابی میں افغان جنگ لڑ رہا تھا۔ یہ تنہائی تو بظاہر، ظاہر کی تنہائی ہے، لیکن لشکر میں رہنے کی اصل تنہائی اس کا اپنے تمام ساتھیوں سے مختلف سوچ رکھنا ہے جو یونیفارم کے ڈسپلن کی قید میں ایسے بندھ جاتے ہیں کہ اپنا عقیدہ، آزادی فکر اور حریت اظہار تک قربان کر دیتے ہیں۔ میجر آفتاب احمد ایک ایسا نام ہے جسے میں اپنی جوانی کے ایام میں اخبارات کی ڈھکی چھپی خبروں اور نجی محفلوں کی داستانوں سے جانتا تھا۔ ایک دن اچانک میرے ایک اور انقلابی دوست حال مقیم جمہوری پبلشرز ،فرخ سہیل گوئندی کے کتابوں کے ڈھیر سے لدے پھندے دفتر میں ملا تو میرے لئے یہ ایک حیرت کا سماں تھا۔ اس قدر منکسرالمزاج شخص میرے لئے مزید حیرانی کا باعث بنا۔ میں اسے ایک کیمونسٹ انقلابی، پیپلز پارٹی کا جیالا یا دنیا پرست انقلابی سمجھتا رہا تھا، لیکن وہ تو ایک ایسا شخص نکلا جس کے سینے کی تڑپ اور جس کے انقلاب کی لگن کتاب اللہ کے بتائے گئے طریقِ انصاف اور معاشی عدل کے حصول پر مبنی تھی۔ تحسین فراقی نے تو اسے سرنگا پٹم کے شہید فتح علی ٹیپو، قسطنطنیہ کے فاتح سلطان محمد، مصر کے شہیدِ انقلاب سید قطب اور برصغیر کے علامہ اقبال، مولانا محمد علی جوہر، علامہ مشرقی اور مولانا مودودی کے قافلے کا ہمرکاب ہی نہیں بلکہ ہم عصر قرار دیا ہے۔ فراقی کے نزدیک ہم عصری ایک وقت میں زندہ رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ عظیم لوگوں کا ازل سے ابد تک اپنا ایک الگ زمانہ ہوتا ہے۔ میجر آفتاب کا اور میرا ایک دکھ مشترک ہے ،ہمارے اس دکھ کے حوالے سے دونوں کی زندگی کا رخ بدلنے کی روایت بھی ایک جیسی ہے۔ ہمارا مشترکہ دکھ 16 دسمبر 1971 میں مشرقی پاکستان کی شکست سے وجود میں آیا تھا۔ میں ان دنوں میں تقریبا سولہ سال کا تھا۔ کتابیں پڑھنے کی بے ترتیبی نے مجھے الحاد کے دروازے پر لا کھڑا کیا تھا۔ نظریاتی طور پر ، کارل مارکس کے کیمونسٹ مینی فیسٹو کا اس قدر قائل تھا کہ اس عنفوانِ شباب میں ہی بھٹو کو انقلابی رہنما سمجھ کر اس کی پارٹی کا جوشیلا کارکن بن گیا تھا، مگر جیسے ہی بھٹو نے گجرات کے ایک بہت بڑے سرمایہ دار کو ضلع کا چیئرمین بنایا تو پارٹی کا ایک انقلابی جتھہ عثمان فتح کی سربراہی میں پارٹی چھوڑ گیا، میں بھی اس میں شامل تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب پاکستان میں انتخابی فضا کے بعد ایک جانب شیخ مجیب الرحمن اور دوسری جانب ذوالفقار علی بھٹو جیتا تھا۔ اقتدار کی رسہ کشی اس قدر خوفناک تھی کہ یہ ملک عالمِ اسلام کی تاریخ کی سب سے بڑی شکست سے دوچار ہوا۔ جس آرمی ایکشن کی حمایت میں بھٹو نے یہ بیان دیا تھا کہ اللہ کا شکر ہے پاکستان بچ گیا۔ اس آرمی ایکشن کی مخالفت میں مشرقی پاکستان کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب علی خان نے ایک طویل نوٹ تحریر کیا تھا۔ جس کی پاداش میں ان کی تنزلی کر دی گئی اور ان کی جگہ ٹکا خان اور پھر نیازی کو لگا کر اپنے مقاصد کی تکمیل کر دی گئی تھی۔ اس سانحہ کے بعد بھٹو میرے نزدیک اب دو وجہ سے قابلِ نفرین تھا۔ ایک تو اس نے کیمونزم کا نعرہ لگایا اور سادہ لوح انقلابیوں سے دغا کیا اور دوسری وجہ یہ کہ مغربی پاکستان میں مکمل اقتدار کی خاطر مشرقی پاکستان کی شکست کی راہ ہموار کی۔ سانحہ مشرقی پاکستان کی رات ایک ایسی رات تھی کہ نہ جانے کیوں میں اس بے فکری کے زمانے میں پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ شاید میرے یہی آنسو تھے جو اللہ کو پسند آئے اور اس نے میرے لئے ہدایت کا دروازہ کھول دیا۔ میں تو ایک ہزار میل دور یہ دکھ سہہ رہا تھا اور میجر آفتاب احمد مشرقی پاکستان کے محاذ پر بھارت سے نبردآزما تھا۔ کیا بلا کا دلیر شہسوار تھا یہ شخص کہ جب اس کے کمانڈر کیپٹن اختر منیر مروت نے بزدلی دکھائی اور دفاعی مورچہ خالی کر دیا تو اس نے بزدلی دکھانے کے جرم میں اپنے ہی باس کو گرفتار کر لیا۔ یہ الگ کہانی ہے کہ اختر منیر مروت کو سانحہ مشرقی پاکستان کے انعام میں سول سروس کا ڈی ایم جی گروپ عطا کر دیا گیا اور وہ مرکزی سیکرٹری داخلہ بن کر ریٹائرڈ ہوا مگر میجر آفتاب کو اس کی جولانی طبع نے چین نہ لینے دیا اور اس نے اپنی ہی فوج کے کردار سے غیر مطمئن ہوتے ہوئے چند ساتھیوں کے ساتھ بغاوت کر دی۔ ایسے اہل جنوں باغیوں کا وہی انجام ہوتا ہے جو میجر آفتاب کا ہوا۔ اس فوج کو انگریز نے برصغیر میں ہر بغاوت کچلنے کیلئے مکمل طور پر ہر ہنر سے آراستہ کیا ہوا ہے۔ یہ الگ کہانی ہے کہ اس سادہ لوح اور خالصتا جذباتی بغاوت کو مصطفی کھر جیسے کائیاں سیاستدان نے کیش کروانے کی کوشش کی اس کی اندرا گاندھی سے ملاقاتیں طشت از بام ہوئیں۔ میجر آفتاب اس ساری سازشوں سے دور اٹک قلعے میں قید اپنی خوبصورت سوانح تحریر کرتا رہا۔ جنرل اسلم بیگ اسے جانتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ یہ وہی بہادر شخص ہے جس نے بھارت کی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی بجائے برما فرار ہونا پسند کیا تھا۔ اسے بے نظیر کی حکومت میں رہائی تو مل گئی مگر اسے اپنی بے چینی اور اضطراب سے رہائی نہ مل سکی۔ اسے بے نظیر نے بھی گرفتار کر لیا اور سندھ کی جیلوں میں اپنے دورِ اقتدار میں گھمایا پھرایا۔ وہ آج تک خواب دیکھتا چلا آ رہا ہے۔ اس ملک میں اس انقلاب کا خواب جو ایک دن کتاب اللہ کے مطابق انسانوں کے دن بدلے دے گا۔ میرے ڈرائنگ روم کے ایک گوشہ خاص میں عظیم مجاہد ملا محمد عمر کی پگڑی رکھی ہے جو میرے جیسے عاجز شخص کو عنایت کی گئی۔ اس نے پگڑی دیکھی تو اس کی آنکھیں آنسوئوں سے تر ہو گئیں، یوں لگتا تھا اس کے سارے خواب آنسوئوں میں سمٹ آئے ہوں۔ کتاب ہارن کھیڈ فقیرا کیا ہے ایک طلسم ہوشربا ہے۔ اس ملک کے گذشتہ پچاس سالوں کے زیروبم کی داستان ہے۔ تحریر اس قدر جاندار ہے کہ آپ کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ کتاب کو لاہور کے ایک گمنام پبلشر منور مرزا نے چھاپا ہے جس کا فون نمبر 0333-4249620 ہے۔ ایسی کتاب تو پاکستان کے ہر بڑے پبلشر کو کفارے کے طور پر چھاپنا چاہئے تھی۔ اپنی بات میجر آفتاب کے فوجی عدالت میں دیئے گئے اس فقرے پر ختم کرتا ہوں۔ میں اپنے کہے ہوئے الفاظ نہ تو واپس لوں گا اور نہ ہی اس میں کوئی کمی بیشی کروں گا۔ میرا ایمان ہے کہ جو کہا جائے، جو وعدے کئے جائیں اور جو حلف اور ذمہ داری اٹھائی جائے، اسے ہر حال میں پورا کرنا ہوتا ہے، بھلے اس کی قیمت جان ہی کیوں نہ ہو۔