اخلاقیات اور سیاست!

اخلاقیات اچھائی اور برائی کے درمیان تمیز کے مطالعہ کو کہتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں لوگوں کو کس طرح عمل کرنا چاہیے ، اور کیا اچھا اور قیمتی ہے۔ کیوں کہ اخلاقیات کا تعلق ہمارے روزمرہ زندگی اور دائرہ کار سے ہے۔ اس میں ہم اچھے کام, اچھے منصوبوں اور اچھائی سے متعلق موضوعات پر بحث کرتے ہیں۔ شروع سے اخلاقیات انسان کی بنیادی ضروریاتِ زندگی رہا ہے۔ ہمیں اچھی زندگی گزارنے, اچھی خوراک کھانے، اچھا خاندان بنانے، اچھے کپڑے پہننے، اچھی گاڑی رکھنے وغیرہ کے لیے سوچ و بچار کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاکہ ہم اچھی چیز پسند کرسکے۔
عظیم فلاسفر سقراط کے دور میں یونانی معاشرہ تباہی کا شکار تھا۔ نہ تعیلم وتربیت اور نہ اخلاقی معیار، سقراط نے اپنی زندگی عوام کو تعیلم وتربیت کی دولت سے آبیاری کے لیے وقف کردی۔ اور اسی کی سزا کے طور پر پھانسی دی گئی۔ لیکن اپنے اصولوں پر کمپرومائز نہیں کیا۔ سقراط کا بنیادی فلسفہ اخلاقیات پر توجہ تھی۔ آپ نے نوجوانوں کو اچھائی اور برائی میں تمیز کے ہنر سیکھائے۔ یونان میں سقراط کی حیثیت ایک اخلاقی و روحانی بزرگ کی سی تھی۔ فطرتاً سقراط، نہایت اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا حامل، حق پرست اور منصف مزاج استاد تھا۔ اپنی اسی حق پرستانہ فطرت اور مسلسل غور و فکر کے باعث اخیر عمر میں اس نے دیوتاؤں کے حقیقی وجود سے انکار کردیا، جس کی پاداش میں جمہوریہ ایتھنز کی عدالت نے 399 قبل مسیح میں اسے موت کی سزا سنائی۔ اخلاقیات اور اخلاقیات تاریخ کے دوران معاشرے کی ترقی کو متاثر کرنے والے سب سے بااثر عوامل میں سے ہیں۔ اخلاقیات پوری تاریخ میں بنی نوع انسان کے تجربے سے حاصل ہوتی ہے اور حقیقت میں یہ اخلاقی قواعد اور اصولوں کے جوہر کی نمائندگی کرتی ہے جو کہ اچھے اور برے کے مابین فرق کو سمجھنے سے حاصل ہوتی ہے۔ سیاست میں اخلاقیات یا اخلاقی سیاست آہستہ آہستہ عوامی منظر کو فتح کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ عصری دنیا جس میں ہم آج رہتے ہیں بہت سے چیلنجوں کا
سامنا کر رہے ہیں جن کا اخلاقی جوش ہے۔ بنی نوع انسان کو مزید جوابات کی ضرورت ہے۔ ایک مناسب تعلیمی نقطہ نظر کی ضرورت ہے اور مزید عوامی بحث ضروری ہے۔ اخلاقی اور اخلاقی مسائل سے دوچار جدید دنیا کے چیلنجوں کا مناسب جواب تلاش کرنے کی کسی بھی کوشش میں معاشرتی شمولیت بہت اہم ہے۔آج کے دور میں عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ اخلاقیات اور سیاست دو الگ موضوعات ہیں۔ کیوں کہ موجودہ زمانے میں سیاست کو کاروبار سمجھا جاتا ہے اور سیاست کو جھوٹ اور فریب سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے تعیلم یافتہ لوگ سیاست اور سیاسی جماعتوں سے بے زار ہے۔اس کی عکاسی انتخابات میں کم شرح ووٹ سے باآسانی لگائی جاسکتی ہے۔ اخلاقیات اور سیاست لازم و ملزوم ہیں۔ اخلاقیات سیاست کا زیور ہیں۔ سیاست کی خوبصورتی اخلاقیات کی بدولت ممکن ہے۔ اگر اخلاقیات کو سیاست سے نکلا جائے۔ تو ہلاکو خانی، چینگز خانی رہ جاتی ہے۔ آج افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں سیاست کے نام پر جو کچھ کھیلا جارہا ہے۔ اس میں اخلاقیات کا نام ونشان تک نہیں۔ان کو سیاست کہنا بے انصافی ہوگی۔ کیوں کہ آج ہماری سیاست میں اخلاقیات نہیں رہی۔ اخلاقی اقدار اور روایات کا نام ونشان نہیں رہا۔ ذات اور نظریہ میں تفریق نہیں رہی۔۔ گالی اور گلوچ سیاست کی بنیادی رموز اوقاف بن گئے۔ کیوں کہ ہماری سیاست میں اخلاقیات نہیں بچی۔۔ اخلاقی اقدار وروایات نہیں رہی۔ آج وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی سیاست کو ازسرنو اخلاقیات کی روشنی سے منور کریں۔ سیاست جھوٹ وفریب کا نام نہیں بلکہ اعلی اخلاقی اقدار کا ورثہ ہے۔