لبرشن فرنٹ کے رہنماء کا یو این سیکریٹری جنرل کو کھلا خط

جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (سندھ ڈویڑن) کے نائب صدر راجہ عارف رضامنہاس نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو کے دفتر نیویارک میں جموں و کشمیر کے عوام کی طرف سے پٹیشن فائل کی ہے۔ جس میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کردار اور ذمہ داریوں کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کی حالت ذار پر توجہ دی جائے۔ قوم پرست رہنمائ نے اپنی پٹیشن میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو یاد دلایا کہ "مسئلہ کشمیر 1948 سے سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر زیر التوا ہے۔ اس وقت، ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا،بین الاقوامی برادری کی حمایت و تائید کے ساتھ اقوام متحدہ نے اس کی توثیق کی تھی۔وہ معاہدہ جموں و کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کا ضامن ہے۔ کشمیر کے بارے میں اصولی موقف اختیار کرنے پر ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔ جب آپ نے اقوام متحدہ کے موقف کو واضح کیا تھا کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قابل اطلاق قراردادوں کے تحت حل کیا جانا چاہیے۔ محترم : ہم آپ کو بھارت کے مندوب سر گوپال سوامی آیانگر کی وہ وضاحت یاد دلانا چاہیں گے جو اس نے اقوام متحدہ کے 227ویں اجلاس منعقدہ 15 جنوری 1948ئ میں کشمیر کے مستقبل کے سوال پر خطاب کے دوران کی تھی، کہ کشمیری عوام کے مستقبل کا فیصلہ ریاست میں معمول کی زندگی بحال ہونے پر رائے شماری سے ہو گا۔ اس نے کہا تھا کہ کشمیری عوام ہندوستان کے ساتھ الحاق سے دست بردار ہی کیوں نہ ہو جائیں، پاکستان کے ساتھ رہنا چاہئیں یا اقوام متحدہ کے ممبر کے طور پر آزاد اور خود مختار ہم اس فیصلے کو تسلیم کریں گے۔اکنامک ٹائم کے کنسلٹنگ ایڈیٹر سوامی ناتھن ایر نے جو بھارت کا معروف ماہر معاشیات، صحافی اور کالم نویس ہے نے، چھ دہائیوں بعد بھارت کے اسی موقف کا دہرایا ہے۔ ٹائم آف انڈیا میں لکھے گئے ایک کالم میں اس نے بھارتی قیادت سمیت دنیا کو یاد دلایا کہ ہم نے چھ دہائیاں قبل کشمیریوں سے استصواب رائے کا وعدہ کیا تھا۔ آئیے اب اس کو پورا کریں اور ان کو تین آپشن اور پاکستان و بھارت کے سیاست دان اور افواج کے بجائے، کشمیری عوام کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کی اجازت دیں کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنے چاتے ہیں، پاکستان کے ساتھ یا خود مختار۔اسی طرح کے جذبات کا اظہار بھارتی پرنٹ اور ٹیلی ویڑن کے صحافی اور کالم نگار، ویر سنگھوی نے بھی 16 اگست 2008 کو ہندوستان ٹائمز نئی دہلی میں لکھے گئے کالم میں کیا۔ "تو، میرا سوال یہ ہے کہ: عنوان سے لکھے گئے کالم میں اس نے کہا کہ اگر کشمیری نہیں چاہتے تو ہم اب بھی کشمیر سے کیوں لٹک رہے ہیں؟ ہمیں کچھ فیصلہ کرنا چاہیے ” "میرا خیال ہے کہ ہمیں وادی میں ریفرنڈم کرانا چاہیے۔تاکہ کشمیری اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں۔ اگر وہ ہندوستان میں رہنا چاہتے ہیں تو ان کا استقبال کیا جائے۔ اگر وہ ایسا نہیں چاتے تو پھر ہمیں کوئی اخلاقی حق نہیں ہے کہ ہم انہیں اپنے ساتھ رہنے پر مجبور کریں۔ "یہ ناقابل تصور سوچنے کا وقت ہے۔” پٹیشن میں سیکریٹری جنرل سے مذید کہا گیا کہ ہم جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین جناب محمد یاسین ملک کے معاملے میں بھی انسانی بنیادوں پر آپ سے مداخلت کی درخواست کرتے ہیں۔ جو اس وقت تہاڑ جیل دہلی میں قید ہے۔ مسٹر ملک ،کشمیر کا ایک ممتاز سیاسی رہنما، انسانی حقوق کا کارکن اور محافظ ہے،م جس نے مسئلہ کشمیر کو ہندوستان، پاکستان اور جموں و کشمیر کے عوام کی قیادت کے درمیان پرامن مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے لیے اپنی زندگی وقف کر رکھی ہے۔ مسٹر ملک، کشمیر میں عدم تشدد کی علامت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ہمیں ان کی زندگی کی فکر ہے جو متعدد سنگین طبی بیماریوں میں بھی مبتلا ہے۔ 1992 میں دل کے والو کی سرجری، گردے کا دائمی نقصان، آنکھ میں چوٹ اور بھارتی ٹارچر سیلوں میں اذیت سے سماعت کا جزوی نقصان تہاڑ جیل کی کال کوٹھڑی میں بے گناہ قید جموں و کشمیر کے معروف سیاسی رہنمائ کی زندگی کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ یاسین ملک کو تہاڑ جیل میں مناسب طبی دیکھ بھال اور ماہر امراض تک رسائی کے بغیر قید تنہائی میں رکھا گیا ہے جو انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے۔ پٹیشن میں کشمیری قوم پرست رہنمائ نے یاد دلایا کہ کشمیری عوام آج بھی اقوام متحدہ سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ ہمارے ساتھ کیا گیا وعدہ کب پورا ہوتا ہے۔ وہ اسے دنیا بھر میں کام اور فیصلے کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ وہ اس سلامتی کونسل کی قراردادوں کو دنیا کے مختلف خطوں میں نافذ ہوتے ہوئے بھی دیکھتے ہیں جس نے ایک قرار داد کشمیر میں رائے شماری کی بھی پاس کی تھی لیکن 75 سال کے دوران اس پر عمل درآمد کا نمبر نہیں آیا۔ وہ دیکھتے ہیں کہ اقوام متحدہ دنیا کے مختلف مسائل میں قائدانہ کردار ادا کرتا ہے۔ اسی لیے کشمیر کے عوام کا خیال ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ آپ اپنے اعلی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ہندوستان کو کشمیر میں ریاستی دہشت گردی سے روکیں اور عدم تشدد کے ماحول کو بحال کرنے کے لیے وادی سے افواج نکالنے کے لیے اسے عملی اقدامات کرنے پر آمادہ کریں۔ اگر صورحال کی سنگینی کو محسوس کیا جائے، تو ہم پختہ یقین رکھتے ہیں کہ آپ درج ذیل اقدامات ضرور ہوں گے :1. جموں و کشمیر کے لوگوں کے خلاف ہندوستانی افواج کی طرف سے فوجی اور نیم فوجی کارروائی کو فوری اور مکمل طور پر بند کیا جائے۔ 2. جموں و کشمیر میں نئے نافذ کردہ ڈومیسائل قانون کو منسوخ کیا جانا چائے، جو جموں و کشمیر کی آبادی کو تبدیل کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں سمیت تمام بین الاقوامی معاہدوں اور چوتھے جنیوا کنونشن کی بھی خلاف ورزی ہے۔ 3. وادی کے قصبوں اور دیہاتوں میں بھارتی فوج اور نیم فوجی دستوں کے قائم کردہ تمام بنکرز، واچ ٹاورز اور رکاوٹیں فوری طور پر ختم کر دی جائیں۔ 4. ہندوستانی قبضے کے خلاف مزاحمت کے سلسلے میں قید کیے گئے تمام افراد کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے۔ 5. اقوام متحدہ کے چارٹر میں تسلیم شدہ انسانی حقوق کے خلاف سخت اور کالے قوانین کو فوری طور پر منسوخ کیا جائے۔
6. سیاسی جماعتوں کو کام کرنے پر پابندی ختم پرامن انجمن سازی ، اجتماعات اور مظاہرے کا بنیادی عوامی حق کو بحال کیا جائے۔ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنمائ کا سیکریٹری جنرل کو لکھا گیا یہ خط بروقت مناسب اقدام ہے۔ ہم کشمیر کے لوگ سفارت کاری کے کمزور پہلو کی شکایت تو کرتے ہیں لیکن خود کچھ نہیں کرتے۔پاکستان کے کرپٹ سیاسی کلچر کے اثرات نے تحریک آزادی کشمیر کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کو بھی متاثر کیا۔ آزاد کشمیر، پاکستان اور ڈائس پورا میں اکثریت تحریک سے الگ محسوس ہوتی ہے یا تصویر کی حد تک ۔ ہر کوئی مال و عہدے کہ فکر میں سرگرداں ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں سیاسی کارکنوں کو قتل کر رہا ہے اور اکثریت کو ٹارچر سیلوں میں بند کیا ہوا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کو حراساں اور گرفتار کیا جا رہا ہے۔ایسے حالات میں راجہ عارف جیسا خط ہر سیاسی پارٹی اور خاص طور پر حریت کانفرنس اسلام آباد کے نمائندوں کو تسلسل ہے لکھنے چاہئے۔ پاکستان اور ڈائس پورا کے کشمیریوں کی جانب سے لاکھوں خطوط کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی حقیقی صورت حال آگاہ کر کے اقوام متحدہ پر خاصا دباو بڑا سکتے ہیں۔