اوورسیز پاکستان کا اثاثہ
پارلیمنٹ میں قانون سازی کے بعد اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنے پر دیار غیر میں مقیم پاکستانی بہت خوش ہیں میں اوورسیز پاکستانیوں کا ہمیشہ سے وکیل رہا ہوں میں نے یورپ اور مڈل ایسٹ کے متعدد ملکوں کے دورہ میں اس بات کا اندازہ لگایا کہ وہ ہم سے زیادہ محب وطن پاکستانی ہیں کیونکہ میں نے بذات خود تجربہ کیا ہے وہ بیرون ملک رہ کر بھی ہم سے زیادہ ملک کے بارے میں سوچتے ہیں اور ملکی معاملات سے منسلک رہتے ہیں میں بڑے عرصے سے یہ بات کر رہا ہوں کہ اگر پاکستان کو کبھی ضرورت پڑی تو یہ اوورسیز پاکستانی ہی پاکستان کی مدد کریں گے یہ پاکستان کا اثاثہ ہیں جنہیں ہم جان بوجھ کر نظر انداز کر رہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں جبکہ عالمی سطح پر پاکستان کو دبوچنے کے لیے نت نئے جال بنے جا رہے ہیں ایسے حالات میں یہ اوورسیز ہی پاکستان کی معاشی ضرورتیں پوری کر رہے ہیں ان کے زرمبادلہ سے پاکستان کے معاملات چلتے ہیں ہم غیر ملکی مالیاتی اداروں کی ہر خواہش پوری کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن اپنے محب وطن پاکستانی اوورسیز کو عزت دینے کے لئے تیار نہیں بہت معمولی معمولی سے اقدامات کرکے ہم نہ صرف ان کا دل جیت سکتے ہیں بلکہ پاکستان میں سرمایہ کاری کو بھی فروغ دے سکتے ہیں یہ ہم سے کچھ نہیں چاہتے یہ صرف اپنے وطن سے عزت کا تقاضا کرتے ہیں یہ چاہتے ہیں کہ جب یہ پاکستان آ رہے ہوں تو ان کے ساتھ عزت و احترام کے ساتھ پیش آ یا جائے ان کے اہل خانہ کی حفاظت کی جائے ان کے اثاثوں کو قبضہ گروپوں کی دسترس سے بچایا جائے انہیں سرکاری اداروں اور اہلکاروں کی بیجا موشگافیوں سے نجات دلائی جائے ان سب کاموں کے لیے کسی بہت بڑی قانون سازی کی ضرورت نہیں بلکہ چند اقدامات کرنے سے ان کے مسائل حل ہو سکتے ہیں لیکن انتہائی بدقسمتی ہے کہ رشتہ داروں سے لے کر سرکاری اہلکاروں تک ہر کوئی چاہتا ہے کہ ان سے پیسے بٹورے جائیں ہماری یہ نفسیات بن چکی ہے کہ بیرون ملک سے آنے والے شاید درختوں سے پیسے توڑ کر لاتے ہیں یہاں ہر کوئی ان سے پیسے لوٹنے کے چکروں میں ہوتا ہے بات کسی اور طرف نکل گئی ابھی میرا مقصد یہ تھا کہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنے سے ان کے اعتماد میں اضافہ ہوگا وہ اپنے آپ کو پاکستان کے معاملات میں حصہ دار سمجھیں گے اس اعتماد سازی سے سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوگا حکومت کو اوورسیز کے لیے سرمایہ کاری کے منصوبے وضع کرنے چاہئیں جن میں سرمایہ کاری کی ضامن حکومت ہو انتخابات میں ہمارے امیدوار جب دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے ووٹروں سے رابطہ کریں گے تو ان کے مسائل کے بارے میں بھی آگاہ ہوں گے اس طرح پارلیمنٹ میں ان کے مسائل کے بارے میں بات ہو سکے گی اوورسیز پاکستانیوں کو بھی اپنے علاقوں کی تعمیر و ترقی میں میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملے گا سویڈن سے آئے ہوئے میرے دوست جنید چوہدری اور میاں یاسر مجھے ملنے کے لیے تشریف لائے انہوں نے بتایا کہ اوورسیز پاکستانی ووٹ کا حق ملنے سے بہت خوش ہیں حکومت کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے آن لائن اجرا سے ہمارے بہت سارے مسائل حل ہو گئے ہیں اب حکومت کو چاہیے کہ وہ سفارت کاروں کو ان کے اصل کام پر لگائے انھیں پابند بنایا جائے کہ وہ وہاں کے چیمبر آف کامرس اور یہاں کے چیمبر آف کامرس سے رابطے کو یقینی بنائیں وہاں پاکستانی اشیا کے لیے منڈیاں تلاش کریں ایکسپورٹ ٹارگٹ دئیے جائیں پاکستان مخالف مہم کو روکنے لیے سفارت کاری کریں کشمیر کے لیے آواز بلند کی جائے پاکستان کے لیے لابنگ کی جائے تمام سفارتی عملے کی کارکردگی کا ہر ماہ جائزہ لیا جائے آخر میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بارے میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم سو سال پیچھے کے ماحول میں زندہ رہنا پسند کرتے ہیں ہم نے ہمیشہ ٹیکنالوجی کی مخالفت کی اور اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں ہم سیکھنے کیلئے تیار نہیں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے ہم آج بھی روایتی انداز اپنائے ہوئے ہیں ہم نے چھاپہ خانوں کی مخالفت کی ہم نے جدید طریقہ علاج کو انسانیت کی دشمنی قرار دیا یہاں تک کہ ہم نے ٹیلی فون بجلی اور جدید آلات کو بھی حرام قرار دیا جن کیمروں کے استعمال کو اب زندگی کا لازمی حصہ تصور کیا جاتا ہے ہم ان کی بھی مخالفت کرتے رہے ہیں یہ اے وی ایم مشین کس کھیت کی مولی ہے دنیا آگے کو جا رہی ہے ہم نے بیک گیر لگایا ہوا ہے اپوزیشن کو چاہیے کہ تنقید برائے تنقید نہیں بلکہ تنقید برائے اصلاح کرتے ہوئے اپنی تجاویز دے تاکہ انتخابی عمل کا ایسا فول پروف انتظام کیا جا سکے جس سے کسی قسم کی دھاندلی کا احتمال نہ رہے دنیا کے مہذب ملکوں میں حکومت اور اپوزیشن مل کر بہتری کے اقدامات کرتی ہے لیکن ہم یہاں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے باز نہیں آتے ہم پچھلی حکومت کے تمام تر اقدامات کو کھوہ کھاتے میں ڈالنے کے لیے ان کو دفن کر دیتے ہیں اور نئے منصوبوں کے لئے پیسے مانگنے شروع کر دیتے ہیں جب اگلی حکومت آتی ہے تو وہ ان منصوبوں کو ختم کرکے نئے شروع کر دیتی ہے
ہم اس ایکسرسائز سے چھوٹے چھوٹے کاموں میں الجھ کر رہ گئے ہیں ملک میں لانگ ٹرم منصوبے التوا کا شکار رہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اتفاق رائے کے ساتھ لانگ ٹرم منصوبوں پر تسلسل کے ساتھ کام کرنا چاہیے تاکہ مسائل کا حقیقی حل نکالا جاسکے۔