نثار اورجانثار

دنیا بھر کے انسان 2022ء کی چاپ سن رہے ہیں لیکن پاکستان کے عوام ہنوز 1990ء کی” دہائی” سے "رہائی” کے منتظر ہیں۔جہاں سیاست ریاست کواپنے شکنجے میںدبوچ لے وہاں معاشرت اورمعیشت کاآئی سی یو میں پہنچنا فطری امر ہے۔ہماری صحافت کو ریاست کی مضبوطی کیلئے سچائی تک رسائی یقینی بناناہوگی ، محض بہتان کی بنیاد پرملک میںہیجان اورسیاسی وآئینی بحران پیداکرنا ہرگز قابل قبول اورقابل برداشت نہیں ۔میثاق جمہوریت کی آڑ میں جمہوریت کے ساتھ بدترین مذاق کیا گیا کیونکہ 1990ء سے اب تک مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی سے وابستہ خاندان اورسیاستدان ایک دوسرے جبکہ چند عاقبت نااندیش قومی اداروں پرکیچڑ اچھال رہے ہیںاورظاہرہے کیچڑ میں اُترے بلکہ لتھڑے بغیر دوسروںپرکیچڑ اچھالنا ممکن نہیں۔قومی سیاست میں سرگرم” کذاب” ریاست کیلئے بدترین”عذاب” کی مانند ہیں، ان کے منفی پروپیگنڈے کے باوجود عوام کااپنے دفاعی اداروں پراعتماد برقرار ہے۔قومی چوروں اور مفروروں کی بہتان تراشی کے باوصف افواج پاکستان سنجیدہ پاکستانیوں کیلئے قابل فخر ہیں۔ مٹھی بھر سیاستدانوں کے” گند "اورایک دوسرے کیخلاف ان کی” گندی” زبان نے سیاست کو”گندا” کردیا لہٰذاء ان کی اپنے اور دوسروں کے حق میں” صفائیاں” اور”دوہائیاں "قطعی اہمیت نہیں رکھتیں ۔ نناوے فیصد سیاستدانوں کی قلازبایوں اور بیوفائیوں کے نتیجہ میں ان کی ساکھ راکھ کا ڈھیر بن گئی ہے۔پاکستان ایٹمی طاقت تو بن گیا تاہم اس کا سیاسی ومعاشی قوت بننا ابھی باقی ہے کیونکہ ہمارے ہاں منتخب ہونیوالے بھی حکومت نہیں بلکہ سیاست کرتے ہیں جبکہ اپوزیشن کوبھی محض اپنی پوزیشن اورسرکارسے سروکار ہوتا ہے ۔ ہمارے عاقبت نااندیش سیاستدان آج بھی ہماری ریاست کو نوے کی دہائی والی سیاست میں الجھا ئے ہوئے ہیں۔ جس ریاست میں مذہبی قیادت بھی غیبت اوربہتان کی سیاست کرے وہاں پیچھے کیا رہ جاتا ہے۔فیم کی خاطر بلیم گیم سے گیم بنتی نہیں بلکہ برباد ہوجاتی ہے۔یادرکھیں شہرت کاعفت، عافیت ،رفعت اورعزت سے کوئی تعلق نہیں ۔پاکستان کے ایوان اقتدارمیں”مقبول” نہیں "معقول” منتظم کی ضرورت ہے جو”منتقم” مزاج نہ ہو۔
تعجب ہے سزایافتہ مجرم اورمستندکذاب اپنے” زر”اورسیاسی "زور” کے بل پر ایک نیک نام ریٹائرڈ منصف اعظم میاں ثاقب نثاراوران کی آڑ میں آزاد عدلیہ کامیڈیاٹرائل کررہے ہیں۔عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے میاں ثاقب نثار کے کسی فیصلے کوتنقید کانشانہ بنانا اورمبینہ آڈیو کوبنیاد بناتے ہوئے ان پربہتان لگانابراہ راست عدلیہ کی توہین ہے،ریاستی اداروں کیخلاف اس اشتعال انگیز میڈیا ٹرائل میں ملوث عناصر قابل گرفت ہیں ۔ جولوگ اپنے چاردہائیوں کے سیاسی گناہوں کاکفارہ اداکرنے کی بجائے ایک مبینہ آڈیو کے پیچھے چھپ رہے ہیں ان کی آنکھوں میں شرم اور باتوں میں دم نہیں۔ وہ بدعنوان سیاسی خاندان جو قدم قدم پرجھوٹ بولتا ہو اس کی نام نہاد چارج شیٹ کی کوئی قانونی اوراخلاقی حیثیت نہیں ہے۔ میاں ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو ایک سزایافتہ سیاسی خاندان کی چمک کاشاخسانہ ہے اوراس کامقصد فتنہ و فساد کے سوا کچھ نہیں ۔جعلی آڈیو کی طرح نام نہاد فرانزک رپورٹ بھی فراڈ ہے۔سزایافتہ نوازشریف کے دامادصفدر کی طرف سے مزید ویڈیوز ریلیز کرنے کاعندیہ ایک بڑاسوالیہ نشان ہے ، بدقسمتی سے زیادہ تر سیاستدان اپنی ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھتے۔ ماضی میں ججوں اورسیاستدانوں کے درمیان ہونیوالی بات چیت کی چندآڈیوز منظرعام پرآنے کے بعدچیف جسٹس (ر) میاں ثاقب نثار فون پر اس قسم کی حساس گفتگوکرنے کاتصور بھی نہیں کرسکتے، وہ ایک زیرک ،فرض شناس اورقابل اعتماد شخصیت ہیں۔باشعور پاکستانیوں نے ایک خاتون سیاستدان کی حالیہ طویل پریس کانفرنس کومسترد کرد۔ اقتدار سے محروم مٹھی بھر سیاستدانوں نے سیاست کورسواکر نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ایک مخصوص سیاسی جماعت نے اپنی بقاء کیلئے جعلی آڈیوکاسہارا لیا جوبیک فائرکرگیا ۔ دوسروں کامیڈیا ٹرائل کرنااوران پرکیچڑاچھالنا مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی فطرت ہے ، ماضی میںایک خاتون سیاستدان پرشرمناک بہتان لگانے اوراُس کی برہنہ تصاویر جہازوں سے گرانیوالے اِس حدتک گر جائیں گے اس کااندازہ نہیں تھا۔ ایک خاتون سیاستدان کے نجی میڈیا سیل سے ریلیز ہونیوالی آڈیوزاورویڈیوز باشعورپاکستانیوں کوگمراہ کرنے میں ناکام رہیں ۔ نیب زدگان یادرکھیں پاکستان نوے کی دہائی والی سیاست کامتحمل نہیں ہوسکتا۔ عدالت عظمیٰ سے سزایافتہ ایک مفرورشخص اوراس کے حواریوں کاماضی میں عدالت عظمیٰ کی عمارت پرشب خون مارنا ، قومی اداروں کیخلاف مسلسل زہراگلنا اوراپنے مذموم سیاسی ایجنڈے کیلئے خطرہ بننے والی شخصیات پرکیچڑاچھالنا برداشت نہیں کیا جاسکتا۔عوامی عدالت نے آئینی عدالت کے ریٹائرڈ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے منسوب مبینہ آڈیو کوآزاد عدلیہ کیخلاف بغاوت ،شرارت،عداوت اورخطرناک سازش قراردے دیا ہے۔”کورٹ” اور”کوٹ "والے لازم وملزوم ہیں، مجھے کالے” کوٹ” والے روشن دماغ اورزندہ ضمیر خواتین وحضرات پرتعجب ہے وہ اس اندھیرے میں روشنی اورامید کی کرن بن کر”کورٹ "کی رٹ منوانے کیلئے ابھی تک میدان میں کیوں نہیں اترے ،جس وقت انہیں نہیں اترنا تھا اس وقت انہوں نے ایک عشرت پسنداورشہرت کے اسیر "چوہدری” کو اپناسرمایہ” افتخار” بنالیاتھاجوان کی زوردار تحریک کے نتیجہ میں” بحال” ہونے کے بعد اپنے منفی کردار کے نتیجہ میں” بدحال” ہوگیا،آج وہ ایک سیاسی جماعت بنانے کے باوجود کسی گنتی میں نہیں ہے۔پنجاب سمیت چاروں صوبوں کے قانون دانوں نے جس عدلیہ کی آزادی اورمعزول جسٹس حضرات کی بحالی کیلئے پرویز ی آمریت کاسومنات پاش پاش کردیا تھا آج اسی عدلیہ اوران کے ریٹائرڈ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے وقار کی حفاظت کیلئے میدان میں اترنا از بس ضروری ہے۔میں سمجھتا ہوں چیف تیرے جانثاربے شماربے شمارکانعرہ آج شدت سے دہراناہوگا کیونکہ” نثار تیرے جانثار”بے شماربے شمار کانعرہ زیادہ وزن میں ہے۔سائلین کوانصاف کے ساتھ ساتھ صحت کی جدیدسہولیات کی فراہمی ،عوام کے بنیادی حقوق کیلئے اپنا آپ نچھاورکرنیوالے "نثار”آج اپنے ہم وطنوں کی دعائوں اوروفائوں کامحور ہیں۔میاں ثاقب نثار نے ملک وقوم کی آبی ضروریات کودیکھتے ہوئے ایک موثر تدبیر کرتے ڈیم کی تعمیر کیلئے اندرون وبیرون ملک فنڈز ریزنگ کے سلسلہ میں ایک بھرپورتحریک شروع کی تھی ،پاکستانیوں نے انصاف کے علمبردار میاں ثاقب نثار کی آواز پربھرپور جوش وجذبہ کے ساتھ لبیک کہا تھا ،اس دوران اکٹھے ہونیوالے وسائل ریاست اورعوام کی امانت ہیں جبکہ ماضی میں "ڈیم "کے نام پرقوم کو”ڈیم فول "بنانیوالے بدنام زمانہ کردار میاں ثاقب نثار کے صادق جذبوں کوتنقید کانشانہ بناتے رہے۔میں ملک عزیز کے ممتاز قانون دانوں محمد اظہر صدیق ایڈووکیٹ ،محمدسعید طاہرسلہری ایڈووکیٹ ،عبداللہ ملک ایڈووکیٹ پاکستانیوں کوبروقت عدل ونصاف اور بنیادی حقوق کی فراہمی کیلئے سرگرم انٹرنیشنل ہیومن رائٹس موومنٹ کے مرکزی عہدیداران رشدہ لودھی ایڈووکیٹ ، مخدوم وسیم قریشی ایڈووکیٹ،سلطان حسن بٹ ایڈووکیٹ،محمدرضاایڈووکیٹ ، میاں محمداشرف عاصمی ایڈووکیٹ،میاں شہزادحسن وٹوایڈووکیٹ،ناصر عباس چوہان ایڈووکیٹ، ہادی سرور بھٹی ایڈووکیٹ جبکہ نیویارک میں مقیم محمد جمیل گوندل اور فرانس میں مقیم وقاراحمدباجوہ کو نیک نام میاں ثاقب نثار کے جانثار کی حیثیت سے ان کا بھرپوردفاع کرتے ہوئے دیکھتاہوں تومجھے خوشی ہوتی ہے۔
میں سمجھتا ہوں پاکستان میںبلیک میلنگ والی” سیاہ ست” کا مستقبل روشن نہیں ہوسکتا۔پاکستان کے ریٹائرڈ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کابے بنیاد میڈیا ٹرائل درحقیقت آزاد عدلیہ اورنظام عدل پربدترین حملے کے مترادف ہے۔عدالت عظمیٰ کے ریٹائرڈمنصف اعظم میاں ثاقب نثار کی شخصیت یاا ن کے کسی فیصلے کومتنازعہ بنانابراہ راست عدلیہ کوتنازعات میں الجھانا اورشہریوں کے قلوب میں شبہات پیداکرناہے۔عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے میاں ثاقب نثار کادور قابل قدر،قابل رشک اورمشعل راہ ہے ۔ کسی سزایافتہ سیاستدان کواس کی زبان میں جواب دینا میاں ثاقب نثار کے شایان شان نہیں ،اس کام کیلئے ان کے جانثار قانون دان محمداظہر صدیق،عبداللہ ملک،مخدوم وسیم قریشی اورمیاں شہزاد حسن وٹو کافی ہیں۔گلگت بلتستان اورآزاد کشمیر سمیت چاروں صوبوں کے قانون دان میاں ثاقب نثار کی صاف ستھری شخصیت کے شاہد اورترجمان ہیں۔ سیاسی پنڈتوںکاکہنا ہے اگر سزایافتہ عناصر نے پاکستان میں عدل وانصاف کے روح رواں میاں ثاقب نثار پرکیچڑاچھالنا بندنہ کیا اوران سے تحریری معذرت نہ کی توپھر قانون دان انصاف کے ایوانوں اور میدانوں میں ان کابھر پورمحاسبہ کریںگے ۔میاں ثاقب نثار کے دور میں اپنے سیاسی گناہوں کی سزاپانیوالے مخصوص عناصر انتقام اور الزام کا بازار گرم کر تے ہوئے اپنی نیم مردہ اورٹھٹھرتی سیاست کوزندگی کی حرارت نہیں دے سکتے ۔ ملک عزیز کے باشعور عوام نے میاں ثاقب نثار کی شفاف شخصیت کی شہادت دیتے ہوئے ان کیخلاف منفی پروپیگنڈے کوسمندر برد کردیا ہے ۔ نام نہاداورمبینہ آڈیو کے معاملے میں جوڑ توڑ بیک فائرکرگیا۔مسلم لیگ (ن) پر اس کی اپنی خاتون رہنماء کے مسلسل سیاسی خودکش حملے مکافات عمل ہیں۔اس خاتون نے اب تک جس ادارے یاشخصیت پربہتان لگایا وہ پاکستانیوں میں مزید مقبول اوران کامحبوب ہوگیا ۔میاں ثاقب نثار کے جانثار ان کی نیک نامی پرہونیوالے حملے ناکام بنانے کیلئے کسی بھی حدتک جاسکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭