
معاشی بحران
پیارا ملک پاکستان کس کس مشکل سے دوچار نہیں اس کی جھلکیاں آئے روز دیکھی جا سکتی ہیں۔احساس محرومی اس قدر کہ عوام دولت اطمینان سے بھی محروم دکھائی دیتے ہیں۔چہروں پر مسکراہٹ نہیں،دلوں میں شگفتگی نہیں،مستقبل کی کوئی نوید نہیں گویا مایوسی کے دبیز پردوں میں خوشحالی کی آواز گم ہو کر رہ گئی ہے۔عوام بیچارے غربت،بیروزگاری اور تنگدستی کے ہاتھوں عذاب زیست برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔مسائل سے سلگتا ملک کب خوشحال ہو گا؟یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب آپ مجھ سے بہت بہتر انداز سے پیش کر سکتے ہیں تاہم میری رائے تو یہی ہے کہ ایسے ٹھوس اورمثبت اقدامات تجویز کیئے جائیں جن سے معاشی حالات میں بہتری پیدا ہو۔روزگار کے مواقع پیدا کیئے جائیں۔خود انحصاری پالیسی اپنائی جائے۔اپنا کاروبار شروع کرنے کا رحجان پیدا کیا جائے۔محدود وسائل ہیس سہی لیکن کام میں تولائے جائیں۔نوجوانوں کومختلف پیشہ ورانہ تربیت دی جائے۔قرضوں کے بوجھ سے نجات حاصل کرنے کے لیئے ٹھوس اقدامات عمل میں لائے جائیں۔غیر ملکیت قرضوں اور سودیشی نظام سے نجات حاصل کرنے کے لیئے جامع پلان ترتیب دیا جائے۔اس موقع پر یہ بات کہنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ ہمارے ملک میں قدرتی وسائل کیا کوئی کمی نہیں۔زرخیز زمینوں سے زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔دریائوں سے مچھلیوں اور دیگر قیمتی متاع سے دولت کمائی جا سکتی ہے۔دریائوں پر بند باندھ کر بجلی پیدا کیا جا سکتی ہے۔عوام کوہ سستی بجلی فراہم کیا جا سکتی ہے۔آج عوام بجلی کے بلوں کے بوجھ تلے اس قدر دب چکے ہیں کہ انو کی مجبوری ایک افسردہ کہانی معلوم ہوتی ہے۔زمیندار اور کسان اس ملک کا سرمایہ ہیں۔ان کی محنت اور کاوشوں سے ملک کیا خوشحالی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ صنعت کافروغ بھی معاونتیں ثابت ہو پاتا ہے۔آئی ایم ایف پر انحصار کم کرنے کیا کوشش کی جائے۔سرمایہ کار اس ملک میں سرمایہ لگائیں توحوصلہ افزا نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ملکی حالات تبھی بہتری کی طرف جا سکتے ہیں۔جب عوام کی مشکلات کم کرنے کی کو ششیں بروئے کار لائی جائیں۔داخلی اختلافات اپنی جگہ تاہم مسائل کے حل کرنے اور عوام کی بہتری کے لیئے ایک جان ہو کر کام کرنے کیا ضرورت ہے۔تعلیم ہرن بچے کابنیادی حق ہے۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں بھی ہے کہ قومی افق پر رونما ہونے والے حالات کا مقابلہ صرف اور صرف تعلیم یافتہ قوم ہی کر پاتی ہے۔ملکی دفاع کا مضبوط ہونا بہت لازم ہے۔ وہ ملک اور قوم کتنی مظلوم ہوتی ہے جس کے عوام بھوک اور افلاس کی نذر ہوں۔مارکٹیں اس قدر مندی کی نذر کہ بہتری ایک خواب بن کر رہ جائے۔یہ ایک المیہ سے کم نہیں۔ملازمت تو مل جاتی ہے لیکن توجہ کہیں اور یہ اس قوم کے ساتھ سب سے بڑا مذاق ہے۔قومی دولت کااس قدر ضیاع کہ ہرکوئی شیر مادر سمجھ کر صرف کرتا ہے۔ہر نئی بننے والی حکومت نئی پالیسیوں کااجراء کرتی ہے۔جس وجہ سے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔کیونکہ ایک تسلسل نہیں رہتا بلکہ جمود پیدا ہوتا ہے۔حکومت کاکام عوام کے بنیادی حقوق کی فراہمی ہوتا ہے۔لیکن من پسند لوگوں کوروزگار دینا اور غریبوں کونذر انداز کرنا بھی کوئی اچھی روش نہیں۔امن امان کی بحالی کے لیئے اقدامات کرنا بھی اولین مقصد ہونا چاہئے چاہیے۔