افغانستان ایک اور تباہی کے دہانے پر!

افغانستان میں انسانی بحران منہ کھولے کھڑا ہے لیکن بھارت انسانوں کی مدد کے بجائے سیاست میں مصروف ہے۔ بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ بھارت مشکلات میں گھرے افغانوں کا استحصال کر رہا ہے۔ بھارت حیلے بہانوں سے کام لے رہا ہے۔ افغانوں کو درپیش مسائل حل کرنے کے بجائے بھارت ایک اچھے ہمسائے کے بجائے ازلی دشمن کا کردار نبھا رہا ہے۔ افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت ختم ہونے اور طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے لے کر آج تک عالمی طاقتیں ایک مرتبہ پھر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ چونکہ میں مسلسل افغانستان پر لکھ رہا ہوں اس لیے یہ سمجھ سکتا ہوں کہ افغانستان کے معاملے میں ایک مرتبہ پھر ماضی کی غلطیوں کو دہرایا جا رہا ہے۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ موجودہ حالات افغانستان کو نظر انداز کرنے کا مطلب ایک اور جنگ کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ جب بڑی تعداد میں لوگ بنیادی سہولیات سے محروم ہوں گے تو اس کے منفی اثرات کا سامنا سب کو کرنا پڑے گا۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے باوجود افغانستان کے بنیادی مسائل سے نظر انداز کرنا بہت بڑی غفلت ہے۔
بلاشبہ افغانستان ایک مرتبہ پھر ایک بڑی انسانی تباہی کے دہانے پر ہے۔ لوگ بھوک اور ادویات کی کمی سے مر رہے ہیں۔ علاقائی ممالک اور افغانوں کے خیر خواہ نہ صرف اپنے وسائل سے ضرورت مند افغانوں کی مدد کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں بلکہ وہ دیگر ممالک کو بھی افغانستان پہنچنے اور ان کی مدد کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ ہمسایہ ممالک کا خیال رکھا ہے بلکہ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی انسانیت کو مسائل کا سامنا ہوا پاکستان مشکلات میں گھرے انسانوں کی مدد میں کبھی کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ انسانیت کی خدمت کے اسی جذبے کے پیشِ نظر پاکستان نے افغانستان میں انسانی بحران کو مدنظر رکھتے ہوئے "غیر معمولی بنیادوں” پر خصوصی چھوٹ کے ذریعے واہگہ بارڈر کے ذریعے پچاس ہزار میٹرک ٹن ہندوستانی گندم اور دیگر انسانی سامان کی افغانستان منتقلی کی اجازت دی ہے۔ تاہم، پاکستان کی جانب سے گندم کی نقل و حمل کی منظوری کے باوجود بھارت افغانستان کو گندم کی اعلان کردہ کھیپ بھیجنے میں تاخیری حربے اختیار کر رہا ہے۔ بھارت کی طرف سے تاخیری حربے صرف اور صرف سیاسی طور پر ناکامی کی وجہ سے ہیں۔ طالبان نے بھارت کو اشرف غنی والی سہولیات فراہم کرنے سے انکار کیا ہے اور اب جواب میں بھارت تمام ضروری چیزوں کے انتظامات کے باوجود گندم کی منتقلی سے بچنے کے بہانے تلاش کر رہا ہے۔ بھارت ایسے معمولی معمولی بہانے تراش رہا ہے۔ جیسے گندم لے جانے کے لیے افغانوں یا ہندوستانی ٹرکوں کا استعمال۔اس معاملے میں سیاست نے افغانستان کے لیے امداد کے اعلان کے پیچھے بھارت کے اصل مقاصد کو بے نقاب کر دیا ہے۔ بھارت افغانستان میں انسانی المیے کو پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ اور سیاسی فائدے حاصل کرنے کے لیے بھی استعمال کر رہا ہے۔ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ بھارت کسی بھی طور افغانوں کا خیر خواہ نہیں ہے۔ وہ افغانستان کو اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ ماضی میں بھارت نے بدعنوان افغان حکومتوں کا ساتھ دے کر افغانستان کے عدم استحکام میں حصہ ڈال کر افغانستان کے مصائب میں اضافہ کیا ہے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کے ذریعے چلنے والے پاکستانی ٹرکوں پر گندم کی نقل و حمل کی تجویز پیش کی تھی۔ اقوام متحدہ کے بینر تلے پاکستانی ٹرک واہگہ کراسنگ پر گندم لاد کر افغانستان لے جائیں گے۔ شپمنٹ چارجز ہندوستانی حکومت ادا کرے گی۔ ہندوستان کو پہلی کھیپ شروع ہونے کے تیس دنوں کے اندر نقل و حمل کو مکمل کرنا ہوگا۔ ایک اندازے کے مطابق 50,000 میٹرک ٹن گندم بھیجنے کے لیے تقریبا 1,200 ٹرکوں کی ضرورت ہوگی۔پاکستان نے بروقت افغانستان کو امداد کی آسانی سے نقل و حمل کے لیے ایک طریقہ کار فراہم کیا تاکہ افغان اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ افغانستان میں ہندوستانی سامان کی نقل و حمل کے لیے بھی یہی طرز عمل اختیار کیا گیا جب کہ امریکی قیادت میں اتحاد افغانستان میں موجود تھا۔ ہندوستان کو پاکستان کی پیشکش ایک استثنا ہے کیونکہ پاکستان افغانستان میں تیزی سے پھیلتے ہوئے انسانی بحران کو جانتا ہے۔ پاکستان حقیقی طور پر یہ محسوس کرتا ہے کہ افغانوں کے لیے مدد کے تمام راستے کھولے جانے چاہئیں۔ تاہم بھارت جو کہ مختلف مواقع پر افغانستان کا دوست ہونے کا دعوے کرتا رہا ہے۔ماضی میں بھارت سیاسی مقاصد حاصل کرنے اور پاکستان میں بدامنی پھیلانے کے لیے افغانستان پر وسائل خرچ کر رہا تھا لیکن اب بڑے انسانی بحران کے باوجود بہانے ڈھونڈ رہا ہے۔ دنیا یقینا بھارت کا بدلا رویہ دیکھ رہی ہے۔ گوکہ افغانی پریشان ہیں لیکن بھارت کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ طالبان نے افغانستان کی سرزمین کو کسی بھی قسم کی دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ بھارت کو یہ انکار پسند نہیں آیا اور اب وہ اس کا بدلہ اپنے روایتی مکارانہ انداز میں لے رہا ہے۔
پاکستان پہلے ہی افغان بھائیوں کے لیے انسانی امداد کی متعدد کھیپیں بھیج چکا ہے جس میں ایک سو آٹھ ٹرک خوراک، ادویات اور پناہ گاہوں کی چار C-130 پروازیں شامل ہیں۔ پاکستان نے آنکھوں کی دیکھ بھال کے دو مفت کیمپ بھی لگائے ہیں۔ خوست اور کابل میں آٹھ ہزار سے زائد مریضوں کا علاج اور پانچ سو سے زائد آپریشنز کیے ہیں۔بھارت کہتا ہے کہ وہ گندم کو یا تو اپنے یا افغان ٹرکوں میں منتقل کرے اس مقصد کے لیے وہ پاکستانی یا اقوام متحدہ کے بینر تلے کام کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہا ہے۔بھارت کا یہ بھی کہنا ہے کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی کے ساتھ کوئی شرط نہیں لگائی جانی چاہیے لیکن دوسری طرف وہ اسے متنازعہ بنا رہی ہے اور امدادی پیکج سے بچنے کے بہانے ڈھونڈ رہی ہے۔بھارت کا اعتراض افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کی دفعات کے خلاف بھی ہے۔ افغانستان نے نئی ترقی یافتہ ایرانی بندرگاہ چابہار کے ذریعے پہلی بار ہندوستان کو سامان بھیجنا شروع کیا۔ افغان صدر اشرف غنی نے فروری دو ہزار انیس میں تجارتی راستے کا افتتاح کیا تھا۔ اکتوبر میں، طالبان نے ایرانی حکومت سے افغانستان پر اقتصادی دباو کو کم کرنے کے لیے خشک میوہ جات ہندوستان بھیجنے کی اجازت دینے کی بھی درخواست کی تھی۔ تاہم بھارت امداد کے پیچھے اپنے سیاسی ایجنڈے کی وجہ سے وہ راستہ استعمال نہیں کر رہا ہے۔ ورنہ بھارت نے چابہار بندرگاہ میں سرمایہ کاری کی ہے اور اسے پاکستان پر انحصار کم کرنے یا ختم کرنے کے لیے افغانستان سے منسلک کیا گیا ہے۔
بشکریہ نوائے وقت

بھارت یہ پروپیگنڈہ بھی کرتا رہا ہے کہ چابہار بندرگاہ اسے افغانستان سے منسلک کرنے کا بہترین اور سستا راستہ فراہم کرتی ہے۔ چابہار کے علاوہ وسطی ایشیائی راستہ بھی بھارت کے لیے دستیاب ہے، اگر وہ سنجیدگی سے افغانوں کی مدد کرنا چاہتا ہے تو کئی ذرائع اور راستے موجود ہیں لیکن بھارت حیلے بہانوں سے کام لے رہا ہے اور اس کا مقصد صرف اور صرف افغانستان میں قائم طالبان کی حکومت کے مسائل میں اضافہ کرنا ہے۔ روس نے آج ہی چھتیس ٹن انسانی امداد وسطی ایشیائی فضائی راستے سے افغانستان پہنچا دی ہے۔ بھارت کے علاوہ دیگر علاقائی ممالک اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں جب کہ بھارت روایتی منفی ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔