سقوط ڈھاکا کے بعد روپے کی قدر میں دوسری بڑی کمی

رواں حکومت میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تاریخ کی دوسری بڑی کمی واقع ہوئی ہے اور یہ 54 روپے تک گرگیا ہے۔

روپے کی قدر میں سب سے بڑی کمی سقوط ڈھاکا کے موقع پر ہوئی تھی جب اس کی قدر 58 فیصد کم ہوگئی تھی، جب کہ گزشتہ 40 ماہ میں پاکستانی کرنسی 30.5 فیصد گراوٹ کا شکار رہی۔

مشرف کے دور میں ڈالر 60 روپے، پیپلزپارٹی کے دور میں 90 روپے کے گرد رہا

مشرف کے دور میں ڈالر 60 روپے، پیپلزپارٹی کے دور میں 90 روپے کے گرد رہا، ن لیگ کے دور میں 123 روپے تک پہنچ گیا۔ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان کا کہنا تھا کہ ملک کی مالی پالیسی، زری اور شرح مبادلہ کی پالیسیوں کی تابع ہوگئی ہے۔

ایس ڈی پی آئی ماہر اقتصادیات کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی گزشتہ 8 برس میں ہوئی کیوں کہ ن لیگ دور حکومت میں روپے کی قدرمیں مصنوعی طور پر اضافہ کیا گیا تھا۔

تفصیلات کے مطابق، پی ٹی آئی دور حکومت میں گزشتہ 3 سال 4 ماہ (40 ماہ) کے دوران اگست، 2018 سے دسمبر،2021 کے دوران ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدرمیں 30.5 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ اگست 2018 میں ایک ڈالر 123 روپے کا تھا جو کہ دسمبر، 2021 میں 177 روپے کا ہوچکا ہے۔

سقوط ڈھاکا کے وقت پاکستانی روپے کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں 58 فیصد کمی واقع ہوئی تھی

پاکستان کی تاریخ میں روپے کی قدر میں یہ دوسری بڑی کمی واقع ہوئی ہے، اس سے قبل سقوط ڈھاکا کے وقت پاکستانی روپے کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں 58 فیصد کمی واقع ہوئی تھی، جب 1971-72 میں ایک ڈالر 4.60 روپے سے بڑھ کر 11.10 روپے کا ہوگیا تھا۔

آزاد ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں حالیہ گراوٹ آئی ایم ایف کے پیشگی اقدامات کی وجہ سے ہے اور اس کا میکرو اکنامک بنیادوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔