پاکستان کے معاشی اڈے پوری دنیا کے لیے کھلے ہیں: معید یوسف

وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے کہا ہے کہ پاکستان کی اکنامک بیسز (معاشی اڈے) پوری دنیا کے لیے کھلی ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں میزبان سٹیفن سیکر کے سوال پر جواب دیتے ہوئے کیا۔ انٹرویو کے دوران پاک امریکا تعلقات، پاک چین اقتصادی راہداری، مسئلہ کشمیر سمیت دیگر اہم امور پر بھی سوالات پوچھے گئے۔

بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں معید یوسف سے پوچھا گیا کہ پاکستان نے چین کو بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے بدلے گوادر کی بندرگاہ دی ہے جو بیجنگ کے لیے علاقائی اہمیت کی حامل ہے اس سوال پر جواب دیتے ہوئے مشیر برائے قومی سلامتی کا کہنا تھا کہ گوادر میں کوئی چینی فوجی اڈہ نہیں بلکہ وہاں اکنامک بیسز (معاشی اڈے) ہیں جس کی پیشکش ہم نے امریکا، روس، مشرق وسطیٰ کو بھی کی ہے۔

معید یوسف نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستانی حکمت عملی اور سوچ میں بڑی تبدیلی آئی ہے جس میں اب جیو سٹریٹیجک کے بجائے جیو اکنامک ضروریات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے جس کے لیے رابطوں کے مسائل کا حل اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے شراکت داری اہم ہوتی ہے۔

امریکا سے تعلقات سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے اور بدقسمتی سے جب امریکا کا مفاد پورا ہو جاتا ہے تو پاکستان کو ایک طرف کر دیا جاتا ہے مگر اب ہم امریکا کیساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔

امریکی صدر کے ٹیلیفون سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں معید یوسف نے کہا کہ جوبائیڈن کال کرنا چاہیں گے تو کرینگے اور اگر نہیں تو اس بات کا انحصار بھی ان پر ہے۔ واشنگٹن اور اسلام آباد کے تعلقات میں ہمیشہ اُتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔ ہم بہت قریب آ جاتے ہیں، اتحادی بن جاتے ہیں لیکن بدقسسمتی سے جب سپر پاور کا مفاد پورا ہو جاتا ہے تو وہ ہمیں ایک طرف کر دیتے ہیں۔ اس وقت بات چیت مثبت انداز میں چل رہی ہے، تاہم افغانستان کے معاملے پر عدم اعتماد موجود ہے۔

میزبان کی طرف سے سوال پوچھا گیا کہ پاکستان نے اپنی ترجیحات کا رخ امریکا سے موڑ کر چین کی طرف کر لیا ہے، اس پر جواب دیتے ہوئے معید یوسف نے کہا کہ پاکستان کی اپنی سوچ اور نقطہ نظر میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ ہم جیو سٹرٹیجک کے بجائے جیو اکنامک نظریہ پایا جاتا ہے۔ چاہتے ہیں دنیا سے لوگ پاکستان آئیں اور معاش شراکت داری کریں

انہوں نے واضح کرتے ہوئے بتایا کہ چین کے گوادر میں کوئی فوجی اڈے نہیں، وہاں معاشی اڈے ہیں، کیونکہ ہماری پالیسی فوجی اڈے کی پیشکش نہیں بلکہ معاشی اڈے کی ہے۔ یہ پیشکش امریکا نہیں بلکہ تمام ممالک کے لیے ہے۔مشرق وسطی، روس کو بھی آفر کی گئی ہے۔ ہمیں معاشی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ بیجنگ ہمارا بہت دیرینہ دوست ہے۔

مسئلہ کشمیر سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں جب کشمیر کی بات کرتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں دوسرے ملک کے لوگوں کی نہیں بلکہ اپنے لوگوں کی بات کر رہا ہوں، میں مقبوضہ کشمیر پر غیر قانونی قبضے کی بات کرتا ہوں جسے اقوام متحدہ متنازع قرار دے چکی ہے، ان لوگوں کے لیے بولنا ہمارا حق ہے۔ کشمیری ہمارے اپنے ہیں تو میں بات کروں گا اور کرتا رہوں گا۔

کالعدم ٹی ٹی پی سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کالعدم جماعت کی ساری قیادت افغانستان میں ہے، اس گروہ نے ہزاروں پاکستانیوں کو شہید کیا۔ بھارت اور اشرف غنی کے دور حکومت میں اس گروپ کو افغان انٹیلی جنس سپورٹ کرتی تھی، کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کیلئے تمام لوگوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔ ہماری پالیسی ہے مذاکرات سے معاملات حل کریں۔ اگر وہ تشدد کا راستہ چھوڑ دیتے ہیں تو ہم ان کی بات سننے کو تیار ہیں۔ قیدیوں سے رہائی سے متعلق پھیلنے والی بات حقیقت پر مبنی نہیں۔