عوام کو بجلی کے جھٹکے!
ملک میں ہر طرف مہنگائی کی دھائی ہے ،جبکہ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ دوسرے ممالک کے مقابلے میں یہاں مہنگائی کم ہے ،اس لیے آئے روز یوٹیلیٹی بلز میں اضافہ کر دیاجاتاہے ، اس صورتحال میں ایسا لگتا ہے کہ عوام کماتے ہی یوٹیلیٹی بلز جمع کرانے کیلئے ہیں، اس میں سرِ فہرست آئے روز بڑھتے بجلی کے بل ہیں، حکومت عوام کو رلیف دینے کی بجائے آئی ایم ایف کے تقاضے پورے کرنے میں لگی ہے، ایک طرف پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور دیگر سروسز پر سبسڈی ختم کی جا رہی ہے تو دوسری جانب نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی نے بجلی کے صارفین کے لیے نرخ میں فی یونٹ 4روپے 74پیسے کا اضافہ کر دیا ہے، اپوزیشن جماعتوں اور عوامی حلقوں نے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ مسترد کردیا ہے، لیکن انہیں نئی قیمتوں کے مطابق بجلی کے بل دینے ہی پڑیں گے،اپوزیشن کی جانب سے مسترد کرنے والی باتیں تو محض اپنی سیاست چمکانے کے لئے کی جارہی ہیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ حکومت آئی ایم ایف کے ہاتھوں یر غمال عوام پر مہنگائی بم گرارہی ہے ،لیکن یہ ماننے کیلئے تیار نہیں کہ سب کچھ آئی ایم ایف کے زیر اثر ہورہا ہے ،وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب سمیت یگر حکومتی ذمہ داران اپنے بیانات میں عوام کو اطمینان دلانے کی کوشش کر تے رہتے ہیں کہ مہنگائی کے خلاف جلد کریک ڈائون ہو گا،جبکہ حکومت کے ساڑھے تین سالہ دور کی کارکردگی ان کے موقف کی کمزوری کی طرف واضح اشارہ کرتی ہے کہ حکومت آئی ایم کی کڑی شرائط کے ساتھ اپنی آمدن بڑھانے کے لئے بھی بجلی گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کر رہی ہے۔
اپوزیشن مہنگائی کو بنیاد بنا کر حکومت کے خلاف بڑی تحریک کا آغاز کر سکتی تھی، لیکن احتساب کے شکنجے میں جکڑی اپوزیشن نے مؤثر آواز بلند کرنے کے بجائے محض اپنے بیانات کے ذریعے خانہ پری کرتے ہوئے محدود پیمانے پر احتجاج کا اعلان کیا ہے ،ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اپوزیشن جماعتیں عوام کی نبض پر ہاتھ رکھتیں، عوام کے حقیقی مسائل کا ادراک کرتیں، عوام کی آواز بنتیں اور عوامی مقصد کے حصول میں عوام کو کال د ی جاتی ،لیکن ایسا کچھ بھی ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے،کیو نکہ عوام اپوزیشن پر اعتماد کرنے کے لئے تیارنہیں ہیں ، اگر عوام کو اپنی اپوزیشن جماعتوں پر اعتماد ہوتا تو ان کی مہنگائی کے خلاف آواز پر ضرور لبیک کہتے ، مگر عوام اچھی طرح جان چکے ہیںکہ کونسے اپوزیشن لیڈر سخت بیانات داغنے کے بعد بیک ڈور ڈپلومیسی میں مصروف ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں ایسا وقت کبھی نہیں آیاہے کہ عوام حکومت اور اپوزیشن دونوں سے ہی مایوس ہوجائیں،حکومت نے جہاں اپنی ناقص کار کردگی سے عوام کو مایوس کیا ،وہیں اپوزیشن نے بھی کوئی مؤثر کردار ادا نہ کرکے عوامی اعتماد کھویاہے ، اگر اپوزیشن حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرتی تو عوام کا اتنا برا حال نہیں ہو نا تھا، اس وقت حکومت کے ساتھ اپوزیشن بگڑے حالات کی مکمل ذمہ دار ہے،حکومت اور اپوازیشن کو اپنی روش تبدیل کرتے ہوئے عوام کے مسائل کے تدارک کیلئے مشترکہ حکمت عملی وضح کرنا ہو گی ،اگر حکومت اور اپوزیشن نے اپنی روش نہ بدلی توکہیں ایسا نہ ہو کہ مایوسی کے عالم میں عوام کااس نظام سے ہی اعتماد اٹھ جائے،اگر عوام کا نظام سے ہی اعتماد اُٹھ گیا تو پھر کچھ بھی باقی نہیں بچے گا۔
اس وقت ملک میں دگرگوں معاشی صورتِ حال نے عوام کو بہت زیادہ مایوس اور بددلی کا شکار بنا دیا ہے، اگر قوم مایوسی میں گھر جائے تو زیادہ عرصہ تک مشکلات و مسائل برداشت کرنے کے قابل نہیں رہتی ہے، اس کاسماجی ڈھانچہ تیزی کے ساتھ بکھرنا شروع ہو جاتا ہے اور پھر تنزلی اور بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے، گزشتہ چند برسوں میں جس طرح عوام پر مہنگائی کے کوڑے برسائے جا رہے ہیں اور یک بعد دیگرے مہنگائی کے جھٹکے دیے جارہے ہیں، اس نے عوام کو بالکل ادھ مواء کر کے رکھ دیا ہے ،عوام میں اب مزید جھٹکے اور ذہنی اذیت برداشت کرنے کی سکت نہیں رہی ہے ،اس لیے حکومت کو نوشتہ ٔدیوار پڑھ لینا چاہیے، عوام کو مزیددیوار سے لگانے کی کوشش منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے ، آئی ایم ایف کی شرائط پر من و عن عمل کر کے عوام کو مصائب کی بھٹی میں پھینکنا آخر کار خود حکمرانوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن جائے گا،عوام کو بجلی کے جھٹکے دیے کر اگلے چند ماہ بعد مہنگائی کا گراف نیچے لانے کی خوش خبریاں ،زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتیں ،حکومت عوام کا مزید امتحان لے نہ صبر آزمائے ،عوام نے صبروتحمل سے اب تک حکومت کے تمام جھٹکے برداشت کیے ،مگرحکومت عوام کا ایک جھٹکا بھی بر داشت نہیں کر پائے گی۔