دعوں کا جمعہ بازار !

فرمایا ہے کپتان نے پاکستان جلد ہی خطے کا بڑا اور لیڈر ملک بن کر ابھرے گا۔ اس سے پہلے ایک تقریب میں یہ بھی کہا صرف سردیاں مشکل ہیں، گرمیاں آتے ہی مہنگائی اور مشکلات کم ہو جائیں گی، گویا دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ وزیراعظم کی باتوں سے لگتا ہے انہیں آج بھی اس امر کا یقین ہے لوگ ان کی باتیں امید بھرے انداز میں سنتے ہیں اور مطمئن ہو جاتے ہیں۔ کپتان کی ایسی ہر بات کے فوری بعد عوام پر مہنگائی کا کوئی نیا بم گرا دیا جاتا ہے اور ان کی رہی سہی کمر بھی ٹوٹ جاتی ہے۔ مثلا نیپرا نے فیول ایڈجسٹمنت کی مد میں پونے پانچ روپے فی یونٹ بجلی مہنگی کر دی ہے اور مجموعی طور پر 60ارب روپے مزید عوام کی جیبوں سے نکالنے کا منصوبہ بنا لیا گیا، وہ عوام جو پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں سسک سسک کر زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ کپتان کو اب یہ کون بتائے کہ ان کی باتوں سے عوام میں امید نہیں مزید مایوسی پھیل رہی ہے۔ آپ مستقبل کی تاریخ دے کر یہ سمجھتے ہیں عوام آج کی سختیاں ہنسی خوشی برداشت کر لیں گے تو یہ سب سے بڑی خوش فہمی ہے۔ وزیراعظم اور وزرا پچھلے ساڑھے تین برسوں سے دلاسے پہ دلاسہ دیئے جا رہے ہیں، جیسے جلد ہی خوشحالی کے جھکڑ چلنے لگیں گے حالانکہ ابھی تو بربادی کے جھکڑ چل رہے ہیں۔ حکومت کی ساری توجہ اپنا خسارہ پورا کرنے پر ہے، اس کے لئے وہ اپنے اخراجات کم کرنے کو تیار نہیں، البتہ عوام کا پیٹ کاٹ کر وہ انہیں سہانے مستقبل کے خواب دکھا رہی ہے۔ کیا اس طرح کے بیان سے عوام اپنے پیٹ پر صرف خوشحالی کے دعوں کا پتھر باندھ کر گزارا کریں۔
کل مارننگ واک پر میں نے ہر نوع کے افراد کو جب پچھلی حکومت کی تعریف کرتے سنا تو میرا ماتھا ٹھنکا، یہ کون لوگ ہیں جو ایسے سوچنے لگے ہیں، وہ حکومت تو بقول کپتان و وزرائے کرام تمام مسائل کی جڑ تھی، اس نے تو قرضے لے کر ملک کا بیڑہ غرق کیا تھا جب میں نے ان کی باتوں پر غور کیا تو نتیجہ یہ نکلا کہ نوازشریف کیسے بھی تھے، اسحاق ڈار خزانے کے ساتھ جو بھی کھلواڑ کررہے تھے، انہوں نے عوام کو ریلیف ضرور دیا ہوا تھا۔ ڈالر کو اوپر نہیں جانے دیا تھا، بجلی و گیس اور پٹرول کی قیمتیں بھی کنٹرول میں رکھی ہوئی تھیں۔ ایسے میں ایک شخص درمیان میں بول اٹھا۔ اس نے کہا بیرون ملک سے ادھار پر ڈالر لے کر آدھے اپنی جیب میں ڈال لیتے تھے، بجلی و گیس کی قیمتوں کو نیچے رکھنے پر خرچ کرتے تھے اس طرح انہوں نے مصنوعی طور پر معیشت کو سہارا دیا ہوا تھا۔ میں نے دیکھا سب شرکا اس کے پیچھے پڑ گئے۔ کہنے لگے آج کون سا بیرون ملک سے ادھار نہیں لیا جا رہا، قرضہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے،خزانہ بھرتا ہے یا نہیں بھرتا، عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی، انہیں تو دو وقت کی روٹی چاہیے،تاکہ وہ زندہ رہ سکیں، ان کے منہ سے آخری نوالہ تک نہ چھینا جائے۔ اس حکومت نے تو عوام کے منہ سے آخری نوالہ تک چھین لیا ہے۔ یہی مارننگ واک کے شرکا جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تھی تو عمران خان کے گن گاتے تھے جو کوئی مخالفت کرتا، اسے آڑے ہاتھوں لیتے تھے۔ آج یہ صورت حال تھی کہ صرف ایک شخص حکومت کا دفاع کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور باقی سب بڑھ چڑھ کر اس کی مخالفت کر رہے تھے۔ کیا اس تبدیلی کی عمران خان کو خبر ہے۔کیا ان کے وزرا نے آج تک جو الزاماتی کھیل کھیلا ہے اس سے عوام کو مطمئن کرنے میں کوئی کردار ادا کیا ہے؟ جواب نفی میں ہی ملے گا۔آپ کسی کو لاکھ سمجھائیں کہ بھائی تبدیلی ایک دن میں نہیں آتی برسوں کا بگاڑ ہے چند سال میں ختم نہیں ہو سکتا، مگر اب یہ سب باتیں بے کار کی راگنی لگتی ہیں۔ ساڑھے تین برسوں سے عوام کا کچومر نکالنے کی جو پالیسی جاری ہے، اس کے ہوتے ہوئے عوام کو کیسے یہ یقین دلایا جا سکتا ہے کہ اچھے دن آنے والے ہیں بس سردیاں گزرنے کا انتظار کرو۔ اب بھلا خوشحالی کا سردی یا گرمی سے کیا تعلق، کیا اسے بھی موسم سے مشروط کر دیا جائے۔ کیا اس نئی منطق کو بھی قبول کرکے صبر شکر کا گھونٹ پی لیا جائے۔ وزیراعظم عمران خان آج کل روزانہ ہی کسی مقام پر خطاب کرتے ہیں اور اس کے دوران خوشحالی آنے کے ایسے دعوے کر جاتے ہیں جو اب عوام کو زخموں پر نمک چھڑکنے کی کوشش نظر آنے لگے ہیں۔ سچائی یہ ہے کہ ایک طرف خوشحالی کے فسانے ہیں تو دوسری طرف مہنگائی کی سچی کہانی ہے۔ زمینی حقائق جان لیوا ہیں اور حکمرانوں کے دعوے ہوائی باتیں ہیں، جن کا عوام کے دکھ درد سے کوئی تعلق نہیں۔ کل میں ایک میڈیسن لینے ایک فارمیسی پر گیا جو دوائی 360روپے کی ملتی تھی دکاندار نے اس کے 520روپے مانگے، میں نے کہا یہ کب ہوا۔ کہنے لگا کل ہی نئے ریٹ آئے ہیں، پھر اس نے ایک لسٹ بھی دکھائی۔ سوال یہ ہے اربوں روپے منافع کمانے والی کمپنی کو کچھ عرصے کے لئے قیمتیں بڑھانے سے روکا نہیں جا سکتا۔ عوام کو تو سردیاں گزارنے کی تلقین کی جاتی ہے، لیکن مہنگائی پھیلانے والوں کو ایک ایک دن کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے، وہ ہر روز قیمتیں بڑھاتے ہیں اور عوام کے سینوں پر مونگ ڈالتے ہیں۔
معاشی شعبے کی دگرگوں حالت ہے تو گورننس کے معاملے میں بھی بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ حکومت پہلے ان سے یہ پروپیگنڈہ کر رہی ہے کہ افسر شاہی تبدیلی کا ساتھ نہیں دے رہی۔ کوئی تبدیلی لا گے تو افسر شاہی اس کا ساتھ دے گی۔ نظام بدلے گا تو کوئی تبدیلی آئے گی، یہاں آئے روز تھوک کے حساب سے افسروں کو تبدیل کرکے یہ سمجھا جاتا ہے کہ تبدیلی آ جائے گی۔ کپتان نے الیکشن مہم میں کیسے کیسے خوشنما دعوے اور وعدے نہیں کئے تھے۔ پولیس اور بیورو کریسی کے نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانے کی بات کی تھی۔ چلیں مانا کہ معاشی حالات تو جانے والی حکومت خراب کر گئی تھی، انہیں درست کرنے میں وقت لگے گا، مگر نظام کی بہتری کے لئے کس آئی ایم ایف کی امداد چاہیے۔ کسی ایک شعبے میں بھی کوئی اصلاحات متعارف کرائی گئی ہوں، پولیس کا بگاڑ پہلے سے زیادہ ہے اور اسے ملک کا کرپٹ ترین ادارہ ہونے کا سرٹیفکیٹ مل گیا ہے۔ عدلیہ دوسرے نمبر پر آ گئی ہے، اصلاحات کہاں ہیں، تبدیلی کہاں چلی گئی ہے۔ اب ان حالات میں مایوسی نہ پھیلے تو کیا ہو۔ کیا اس مایوسی کی راہ میں عمران خان کی شخصیت کوئی بند باندھ سکتی ہے؟ کیا عوام کی امیدیں اب بھی ان سے وابستہ ہیں؟ کیا ان کی باتیں عوام کو صبر ایوبی سے ہمکنار کر سکتی ہیں۔ کیا صرف دعوں اور باتوں سے تبدیلی کا احساس دلایا جا سکتا ہے۔ ایک طرف سامنے کی ناکامیاں ہوں، عوام دشمن فیصلوں کی گنگا بہائی جا رہی ہے اور دوسری طرف وعد فروا سے بہلایا جا رہا ہو، کیا اس سے بات بن سکتی ہے؟ ہر گز نہیں سرکاری ہرگز نہیں، کچھ عملی طور پر کر سکتے ہیں تو کریں، دعوں کا جمعہ بازار تو پچھلے ساڑھے تین برسوں سے بہت لگ چکا ہے۔
٭٭٭٭٭٭