قوم کی حالت، ہم کہاں جارہے ہیں؟

آج درد مند افراد قوم کی حالت پر غور کرتے ہیں اور وہ سب کچھ سن لینے کے بعد، ایک لمبی ٹھنڈی آہ بھر کر، بصد حسرت و یاس، یہ کہہ کر بات ختم کردیتے ہیں کہ صاحب! قوم کی جو جو خرابیاں گنائی گئی ہیں، وہ سب اس میں موجود ہیں، وہ جس تباہی کے گڑھے کی طرف کشاں کشاں اور رواں دواں چلی جارہی ہے، اس کا بھی ہمیں احساس ہے، اس زوال اور انحطاط کا جو انجام ہوا کرتا ہے وہ بھی ہماری چشم ِ تصور کے سامنے ہے، لیکن ان خرابیو ں کے اسباب و علل پر جوں جوں غور کرتے ہیں، ایک ہی نتیجے پر پہنچتے ہیں اور وہ یہ کہ ہم میں کریکٹر نہیں رہا، جس نتیجے پر جو یہ افراد پہنچتے ہیں، وہ 52 تولے 4 رتی درست ہے، اس کے صحیح ہونے میں کسی کو ذرا بھی شبہ نہیں ہوسکتا، قومیں ڈوبتی اُس وقت ہیں جب ان میں کریکٹر نہیں رہتا، یہ سب بجا اور درست، لیکن سوال یہ ہے کہ کریکٹر کہتے کیسے ہیں؟ وہ کیا چیز ہے، جس کا قوم میں فقدان ہے، کریکٹر کا لفظ ایک اصطلاح ہے اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی اصطلاح کا مفہوم واضح نہ ہو، بات سمجھ میں آہی نہیں سکتی۔ آج ہمارے یہاں جس قدر ذہنی خلفشار اور عملی تشتت و انتشار پیدا ہورہا ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قوم کو یکے بعد دیگرے، نہایت خوش نما، نگاہ فریب، سحر انگیز اصطلاحات دی جارہی ہیں، جن کا اصل مفہوم کبھی سامنے نہیں لایا جاتا، یہ مہم اصطلاحات رفتہ رفتہ سلوگن کی شکل اختیار کرچکی اور پھر بلند بانگ نعرے بن کر فضا میں ارتعاش پیدا کیے چلی جاتی ہیں۔ عوام ان اصطلاحات سے مسحور ہوکر آنکھیں بند کیے، ان کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور نہ یہ کسی سے پوچھتے ہیں، نہ انہیں کوئی بتاتا ہے کہ ان الفاظ کے حقیقی معنی کیا ہیں اور ان اصطلاحات کا مفہوم کیا، جن کی خاطر انہیں اس قدر قربانیاں دینے کے لئے آمادہ اور مشتعل کیا جاتا ہے۔ ہم مختلف قسم کے نعرے اور دیگر سلوگن، برسوں سے سنتے چلے آرہے ہیں اور ان نعروں سے مسحور ہوکر نامعلوم، عوام کس قدر قربانیاں بھی دے چکے، دے بھی رہے ہیں اور نادیدہ ہاتھوں میں بدقسمتی سے استعمال بھی ہورہے ہیں۔ عوام بے چارے بس سن کر ان کے پیچھے چل دیتے ہیں، لیکن انہیں کسی نے اتنا بتانے کی زحمت بھی گوارا نہ کی کہ ان اصطلاحات کا عملی مفہوم کیا ہے، بھر بحالی جمہوریت، استحکام جمہوریت کی اصطلاح کا ایسا غوغا بلند ہوتا ہے اور اس زور شور سے کہ اس نے صور اسرافیل کو بھی مات کردیا، یہ اصطلاح بھی مبہم ہی رکھی گئی، آج کل فضا میں مذہب اور سیاست کے نام سے جو نت نئی اصطلاحات گونج رہی ہیں، اس میں ہر مدعی کا دعویٰ یہ ہے کہ اصلی اور سکہ بند مال صرف اسی کے ہاں مل سکتا ہے، دوسروں کے پاس جعل سازی، من گھڑت، خودساختہ، نقالی، فریب اور دغا بازی ہے، لیکن کیفیت پھر وہی ہے کہ ان اصطلاحات کا مفہوم پھر بھی واضح نہیں۔ اب ظاہر ہے کہ جس قوم کا معمولِ زندگی یہ ہوچکا ہو کہ اس میں اصطلاحات عام کی جائیں، لیکن اس کی عملی شکل دور دور تک نہ ہو، وہاں اگر یہ کہا جائے کہ ہماری تمام خرابیوں کا بنیادی سبب یہ ہے کہ قوم میں کریکٹر نہیں رہا، لیکن اس کی وضاحت نہ کی جائے تو اس کا گلہ کس سے کیا جائے اور تقاضا کس سے؟ تقاضا کرنے پر بھی زیادہ سے زیادہ یہ کہا جائے گا کہ یہاں ہر شخص جھوٹ بولتا، دوسرے کو دھوکا دیتا ہے، رشوت کے بغیر کوئی کام ہو ہی نہیں سکتا، ہر شخص جائز اور ناجائز ہر طریق سے زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے، اس کا سبب اس کے سوا کیا ہے کہ قوم میں کریکٹر نہیں رہا، لیکن سوال پھر وہی ہے کہ کریکٹر کہتے کسے ہیں کہ جب تک اس اصطلاح کا مفہوم واضح نہیں ہوگا۔ جب مردان حق آگاہ کی یاد منانے کے لئے ہم ہر حد سے گزر جاتے ہیں، جس کی عظمتِ شان اور رفعت مقام کے صحیح نقوش کو ہم اپنا نصب العین تک نہیں بناپاتے، سلامتی اور امن کے لفظوں کو پڑھتے تو ہیں لیکن دلوں میں اس کی کوئی گنجائش نہیں، ایسے مسخ کرداروں کو اچھائی کا پیرہن کس طرح دیں کہ اس سے مکمل ناآشنائی ہے۔ ڈر اور لالچ دو ایسے کام ہوتے ہیں، جن سے آپ کسی سے، اس کی خلافِ منشا کام کراسکتے ہیں۔ہر ذی حیات، ہر قیمت پر اپنی جان کی حفاظت کرتا ہے، اس کے لئے اسے جس قدر اسباب و ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے وہ اُسے حاصل کرتا اور محفوظ رکھتا ہے۔ چیونٹی کی ننھی سی جان ہوتی ہے، اس کے راستے میں ایک ذرا سا تنکا رکھ دیجیے اور دیکھئے کہ وہ اس سے محفوظ رہنے کے لئے کس قدر تڑپتی اور تلملاتی ہے اور وہ جو کہتے ہیں کہ بلی کے پائوں جلنے لگے تھے تو اس نے اپنے بچے کو پائوں تلے لے لیا تھا، تو وہ بھی اسی جذبہ? تحفظِ خویش کی نمود تھی۔ چیل کے سائے سے مرغی کے چوزے کس طرح بھاگ کر اس کے پروں تلے دبک کر بیٹھ جاتے ہیں اور بلی کی میائوں سے چوہیاں کس طرح بلوں میں گھس جاتی ہیں، لہٰذا اگر کوئی شخص یا گروہ اپنی خودساختہ اصطلاح کے بدلے درندوں کی درندگی کو برداشت کرتا رہے تو اسے اس کا کریکٹر نہیں کہا جائے گا، اگر کریکٹر کا یہی معیار ہو تو پھر جانوروں سے بڑھ کربلند کردار کا حامل کون ہوسکتا ہے؟، آج ہم سماجی، اخلاقی، سیاسی وغیرہ کے سفرِ حیات کے اُس دوراہے پر ہیں، جو بال سے باریک اور تلوار سے تیز پُل صراط کی طرح ہے کہ جس پر سے اگر ذرا سا بھی پائوں پھسلے تو ساری قوم تباہیوں اور بربادیوں کے جہنم میں جاگرے۔