بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی پہ فکری نشست

ایمنیسٹی انٹرنیشنل اور متعدد انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق حالیہ دنوں میںبھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں شدت اختیار کر رہی ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ آزادانہ رپورٹنگ کرنے والے میڈیا نمائندگان کی گرفتاریاں اور ان کے خلاف تشدد کی کارروائیاں بھی کی گئی ہیں۔انسانی حقوق کے ادارے ایمنیسٹی انٹرنیشنل کو ان کارروائیوں کے خلاف آواز اٹھانے پر سختی کا سامنا کرنا پرا جس میں اکانٹس کو منجمد کرنے کے علاوہ دھمکی آمیز کارروائیاں بھی شامل ہے۔ اس ضمن میں انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر نواب آف جوناگڑھ نواب جہانگیر خانجی کے زیر اہتمام جوناگڑھ ہاس کراچی میں 10 دسمبر کو سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ سیمینار میں نواب آف جوناگڑھ کمیونٹی کے سر کردہ افراد اور دیگر سماجی اور سیاسی افراد نے شرکت کی۔
مقررین نے زور دیا کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی منشور کے مطابق تمام انسان برابر ہیں جس میں رنگ، نسل،زبان، مذہب، عقیدہ، علاقہ، سیاسی نظریات، خاندانی حیثیت اور اقوام کی بنیاد پر امتیازی سلوک رکھنے کی مکمل ممانعت ہے۔ اس کے برعکس بھارت کی جارہانہ پالیساںانسانی حقوق کی خلاف ورزی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مقررین نے انسانی حقوق کے عالمی دن اوراس کی قانونی حیثیت، بھارتی جارہانہ پالیسیوں کی مد میں مسلمانوں اور اقلیتوں پر ظلم وجبر،بھارت کی جانب سے کشمیر کی جغرافیائی حیثیت کو ختم کیا جانا اور جوناگڑھ پر ناجائز بھارتی قبضے پہ بھی اظہارِ خیال کیا۔
سیمینار میں بھارت کا حقیقیچہرہ پوری دنیا کے سامنے واضح کیا گیا کہ کس طرح بھارت اپنے پرتشدد آر ایس ایس نظریات کو استعمال کرتے ہوئے بھارت میں مقیم تمام اقلیتی کمیونٹیز کے بنیادی حقوق کو پامال کرتا ہے اور یو این ہیومن ڈیکلریشن کی سر عام خلاف ورزی کرتا ہے۔ مقررین نے امریکی محکمہ خارجہ کی سال 2020 میں انسانی حقوق کی صورتحال کی مد میں پیش کردہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سال 2020 کے ابتدائی چھ ماہ میں جموں و کشمیر میں قتل کے 32 واقعات درج کیے گئے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اگست 2019 میں جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد بھارتی حکام نے وہاں کے مقامی سیاست دانوں پر کوئی مقدمہ چلائے بغیر انہیں قید میں بھی رکھا ۔
ریاست جوناگڑھ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارتی سرکار نے9 نومبر 1947 کو نا جائز اور نا حق قبضہ کیا۔یہ بھارت کی جارہانہ اور توسیع پسندانہ ہندوتوا پالیسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جولائی 1947 کے ہندوستانی ایکٹ کے مطابق تمام ریاستوں کو مکمل آزادی تھی کے وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں۔ ریاست جوناگڑھ کے نواب مہابت خانجی نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ الحاق کیا تو بھارت نے ریاست جوناگڑھ پر طاقت کے ذریعے نواب مہابت خانجی کی غیر موجودگی میں قبضہ کر لیا۔ بھارت کے اس غیر قانونی اقدام کے خلاف ریاست جوناگڑھ کے مسئلے کو اقوام متحدہ میں اٹھایا گیا جو آج تک حل طلب ہے۔ 4 اگست 2020 کو موجودہ حکومت نے پاکستان کا نیا سیاسی نقشہ جاری کیا جس میں جوناگڑھ کو واضح طور پہ پاکستان کا حصہ قرار دیا اور ریاست جوناگڑھ کے مسئلے کے حل کے لئے راہ ہموار کی کیونکہ قانونی طور پہ آج بھی جوناگڑھ پاکستان کا حصہ ہے جس پہ بھارت نے ناجائز اور غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے۔
بھارت کی آر ایس ایس شدت پسندانہ نظریات صرف ریاست جوناگڑھ تک محدود نہیں بلکہ مختلف انسانی حقوق کے اداروں کی رپورٹس کے مطابق جن میں سر فہرست یو این ہیومن رائٹس کمیشن شامل ہے،مقبوضہ کشمیر میں اور بھارت کے دوسرے علاقوں میں متعدد انسانی حقوق کے خلاف کارروائیاں ہو رہی ہے۔ یو این کے نمائندے کے مطابق بھارت اور کشمیر میں جس بے جا، ماورا عدالت قتل اور زبردستی گرفتاریوں کی وافر مقدار میں مثالیں موجود ہیں۔ یو این ہیومن رائٹس کمیشن کی 2019 کی رپورٹس کے مطابق عام بھارتی اور کشمیر کی عوام کو بیلٹ گنز کے ذریعے نشانہ بنانا، حبس بے جا میںرکھنا، میڈیا نمائندوں پر حملے کرنا، غیر جانبدار رپورنٹگ سے روکنا، لوگوں کو سوشل میڈیا تک رسائی نہ دینا، انٹرنیٹ کی سہولت کا خاتمہ اور اس کے علاوہ بہت سے بنیادی حقوق جس کی خلاف ورزیوں کا بھارت مرتکب پایا گیا ہے۔
یو این ڈ پارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق بھارت اس خطے میں میں انسانی حقوق کی پامالی میں مصروف رہا ہے۔ جس میں لوگوں کا قتل عام، خاص کر پولیس کی طرف سے ماورا عدالت قتل، اقلیتوں خاص کر مسلمانوں پرمظالم جس میں ان کے خلاف نا جائز مقدمات اور اس پر تشدد کی کارروائیاںشامل ہے۔ 2019 میں ایک سال کے اندر پولیس کی تحویل میں 125 افراد کو تشدد کے بعد قتل کیا گیا جن میں 15 مسلمان 13 دلت شامل تھے۔ اس کے علاوہ غیر قانونی انسانی شہریت کے بل پر احتجاج کرنے والوں کا قتل عام کیا گیا۔ 28 اگست کو پولیس نے مشتعل ہندوں کے ساتھ مل کر 50 مسلمانوں کا قتل کیا۔
اس کے علاوہ دوسری اقلیتوں خاص کر مسیحی برادری کے افراد کو بھی قتل کیا گیا۔ آر ایس ایس کے ایجنڈے نے بھارت میں مذہبی اور معاشرتی اقلیتوں خاص کر مسلمانوں اور دلتوں کا جینا محال کر دیا ہے۔
بھارت حکومت کی ظالمانہ کارروائیوں سے نہ صرف مسلمان بلکہ بھارتی کسان بھی متاثر ہوئے ہے اور پچھلے کئی سالوں سے احتجاجی تحریکیں، پنجاب، ہریانہ، بنگال اور جنوبی اور مغربی بھارت میں کسانوں کی جانب سے چلائی جا رہی ہے۔ فارن پالیسی میگزین کے مطابق انڈیا میں کوئی بھی اقلیت محفوظ نہیں ہے چاہے وہ مسلمان ہو، سکھ ہو، عیسائی ہو، یا جین ہو اور اقلیتوں کے علاوہ نچلے درجے کے ہندوں پر بھی مظالم کے پہاڑ ڈھائے گئے ہیں جس کی واضح مثال بھارت سرکار کی طرف سے لائے گئے شہریت کے دو بل این سی آر اور سی اے اے ہیں۔
مقررین نے مزید کہا کے یو این ہیومن ڈیکلریشن رائٹ کو چاہیے کے بھارت کے جبر کو قابو میں کیا جائے اور خلاف ورزی پر سخت قانون کارروائی کی جائے۔ نواب آف جوناگڑھ کی جانب سے منعقد کیا گیا سیمینار قابلِ ستائش ہے جس نے نہ صرف بھارت ا چہرہ بے نقاب کیا ہے بلکہ پاکستان کے قانونی اور اصولی مقف کو بھی اجاگر کیا ہے۔