23 مارچ مہنگائی مارچ؟

لیجیے صاحب پی ڈی ایم تین سال کی کوششوں کے بعد حتمی فیصلے پر پہنچ گئی ہے۔ نہ استعفے، نہ لانگ مارچ، نہ عدم اعتماد کی تحریک، اب صرف مہنگائی مارچ ہوگا وہ بھی 23 مارچ کو۔ اس دن پوری قوم یوم پاکستان مناتی ہے اور اس دن کو یاد کرتی ہے جب آج سے اکیاسی سال پہلے 1940 میں اسی تاریخ کو مسلمانانِ برصغیر کے ایک نمائندہ اجلاس نے لاہور میں قرار داد پاکستان منظور کرکے تحریک پاکستان کا آغاز کیا تھا اور قائد اعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت مسلمانوں کے عدیم النظیر اتحاد نے صرف سات سال کے اندر اپنی منزل حاصل کرلی تھی۔ قیام پاکستان سے زیادہ مشکل اور اہم مرحلہ تعمیر پاکستان کا تھا۔ جس میں بحیثیت ِ مجموعی پوری قوم بری طرح ناکام رہی۔ سیاستدانوں کی ہوس ِ اقتدار نے چوبیس سال کے اندر ملک کو دولخت کردیا جو مغربی حصہ باقی بچا اس میں چھینا جھپٹی اور لوٹ مار کا کھیل شروع ہوگیا۔ اب نوبت یہ آگئی ہے کہ 23 مارچ بھی متنازع ہوگیا ہے اور پی ڈی ایم اس روز یوم پاکستان منانے کے بجائے مہنگائی مارچ کی صورت میں یوم احتجاج منارہی ہے۔
سچ بات تو یہ ہے کہ حضرت مولانا نہ لانگ مارچ نہ مہنگائی مارچ وہ تو براہِ راست اجتماعی استعفے دینے کے حق میں تھے اور چاہتے تھے کہ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور خود ان کی جمعیت کے ارکان قومی اسمبلی اجتماعی استعفے دے کر باہر نکل آئیں اور ازسرنو انتخابات کا مطالبہ کردیں۔ یار لوگ وجہ اس کی یہ بتاتے ہیں کہ حضرت مولانا انتخابات کے ذریعے اسمبلی میں پہنچنے میں ناکام رہے تھے اور ضمنی انتخابات میں بھی انہیں کامیابی کی بہت کم امید تھی۔ اس لیے اسمبلی کا وجود ہی ان کے نزدیک بے معنی ہو کر رہ گیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ازسرنو انتخابات ہوں تا کہ وہ کھلے ماحول میں اپنی قسمت آزما سکیں اور کامیابی کی صورت میں نئی اسٹرٹیجی اپنائیں جس میں حکومت کے ساتھ تعاون کا امکان بھی ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ حضرت مولانا جنرل پرویز مشرف کے زمانے سے نواز شریف اور زرداری کے ادوارِ حکومت تک اقتدار کا حصہ رہے ہیں۔ انہوں نے اپوزیشن کی بھی ہے تو ہمیشہ فرینڈلی اپوزیشن کی ہے جس کے بارے میں سیانے کہتے ہیں کہ ہینگ لگے نہ پھٹکری، رنگ چوکھا آئے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ حضرت مولانا کو ہینگ بھی لگانی پڑ رہی ہے اور پھٹکری بھی لیکن رنگ ابھرنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ابتدا میں میاں نواز شریف اجتماعی استعفوں کے حق میں تھے لیکن شاید وہ بھی اب اس ایشو سے کنی کترا رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آنکھ مچولی کا یہ کھیل جاری رہے۔ یہاں تک کہ حکومت اپنی مدت پوری کرلے اور پوری طرح ایکسپوز ہوجائے۔ رہی پیپلز پارٹی تو وہ کسی صورت بھی اجتماعی استعفوں کی روا دار نہ تھی کیوں کہ اس کی زد براہ راست سندھ حکومت پر پڑتی تھی جہاں وہ تیسری بار اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اگر کوئی غیر معمولی واقعہ پیش نہ آیا تو یہ سلسلہ چلتا رہے گا اور سندھ میں اس کے اقتدار کو کوئی نہ ہلا سکے گا۔
حضرت مولانا اجتماعی استعفوں سے مایوس ہو کر لانگ مارچ پر اتر آئے تھے اور بار بار اس کی تاریخیں دے رہے تھے۔ میاں نواز شریف بھی اس کے حق میں تھے اور حضرت مولانا تو ہلا شیری دے رہے تھے بلکہ واقفانِ راز کے مطابق میاں صاحب نے اس سلسلے میں حضرت مولانا کی ڈیمانڈ بھی پوری کردی تھی لیکن پیپلز پارٹی پھر آڑے آگئی۔ اس نے لانگ مارچ کی حمایت کرنے اور اس کے لیے کارکن فراہم کرنے سے انکار کردیا۔ زرداری کا اصرار تھا کہ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران حکومت کو رخصت کیا جاسکتا ہے اور وہ اس کی ذمے داری لینے کو تیار ہیں لیکن حضرت مولانا اس پر آمادہ نہ ہوئے کیوں کہ وہ قومی اسمبلی ہی کو ناجائز سمجھتے تھے۔ اب بات مہنگائی مارچ پر جا کر ختم ہوئی ہے۔ مہنگائی کا جادو سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ خود حکمران اعتراف کررہے ہیں کہ ہاں مہنگائی بڑھی ہے لیکن وہ اسے عالمی لہر قرار دیتے ہیں۔ پی ڈی ایم نے بھی مہنگائی ہی کو سب سے اہم ایشو قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف میدان میں نکلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے لیکن اس کے لیے 23 مارچ کا انتخاب کوئی اچھا فیصلہ نہیں ہے۔ کم از کم قومی دنوں کو سیاسی محاذ آرائی سے پاک ہونا چاہیے۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ اس دن اسلام آباد میں فوجی پریڈ ہوتی ہے اسے دیکھنے کے لیے غیر ملکی سفارت کاروں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے۔ صدر یا وزیراعظم تقریب سے خطاب کرتے ہیں۔ اس خطاب میں بالعموم پاک بھارت تعلقات اور مسئلہ کشمیر پر اظہار خیال کیا جاتا ہے اور پاکستان کے اس موقف کو دہرایا جاتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو حق و انصاف کی بنیاد پر حل کیے بغیر خطے میں پائیدار امن قائم نہیں ہوسکتا اور نہ ہی بھارت سے خوشگوار تعلقات قائم ہوسکتے ہیں۔ ممکن ہے اب کی دفعہ حکمرانوں کے خطاب کا موضوع بدل جائے۔ یہاں اگر اس دوران مہنگائی مارچ اسلام آباد میں وارد ہوگیا تو سارا پروگرام چوپٹ ہوسکتا ہے۔
ہم یہیں تک لکھ پائے تھے کہ وزیراعظم عمران خان یہ بیان دے کر مہنگائی مارچ کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے کہ پاکستان اب بھی دنیا کا سستا ترین ملک ہے۔ اگر تھوڑی بہت مہنگائی ہوئی بھی ہے تو سردیوں کے جاتے جاتے اڑن چھو ہوجائے گی۔ واضح رہے کہ مارچ میں رت بدل جاتی ہے اور سردیوں کی جگہ بہار ڈیرا جمالیتی ہے۔ درخت ہرے ہرے پتوں سے بھر جاتے ہیں اور باغوں، پارکوں میں رنگ برنگے پھول کھل اٹھتے ہیں۔ حضرت مولانا مہنگائی مارچ لے کر اسلام آباد آئیں گے تو بہار دل پزیر ان کا استقبال کرے گی اور مہنگائی کا نام و نشان بھی نہ ہوگا۔ حضرت مولانا آخر کس سے اپنا سر کھپائیں گے۔ یوں بھی مہنگائی حضرت کا ہدف نہیں ہے وہ تو عمران حکومت کا تیاپانچا کرنا چاہتے ہیں لیکن نام مہنگائی کا لے رہے ہیں۔ کیا مہنگائی مارچ سے حکومت ختم ہوسکتی ہے؟
ایں خیال است و محال است و جنوں
٭٭٭٭٭٭