کیا ترکی پاکستان سے ناراض ہے؟

۔1994 میں جب میں والدہ کے ساتھ حج پر گیا تھا مطاف میں نماز ادا کی تو میرے برابر میں ایک لحیم شحیم جسامت والے حاجی صاحب تھے مجھے وہ ترکی کے لگ رہے تھے جب ہم نے سلام پھیرا تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ پاکستانی ہیں میں نے کہا جی میں پاکستانی ہوں انہوں نے بڑی گرم جوشی سے مجھ سے ہاتھ ملایا اور پھر کہا کہ پاکستانی اور ترکی بھائی بھائی ہیں انہوں نے اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں کو آپس میں ملاتے ہوئے یہ بات کہی میں ان کے اشارے سے یہی سمجھا کہ وہ یہی کہہ رہے ہیں پاکستانی اور ترکی بھائی بھائی ہیں۔ ترکی دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کے عوام اور حکمران دونوں پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔
ترکی کے عوام میں پاکستانیوں سے ایک خاص قسم کی بے لوث محبت نظر آتی ہے کہ جیسے وہ ہمارے کسی احسان کے بوجھ تلے دبے جارہے ہوں۔ اگر کچھ تاریخی واقعات پر نظر ڈالیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ نبی اکرم کے بعد خلافت قائم ہوئی اس کے بعد ملوکیت کا دور آیا ملوکیت کے بعد بادشاہت کا دور آیا لیکن خلافت کا ادارہ اپنی جگہ قائم رہا گو کہ یہ ایک نمائشی منصب تھا عملا اختیار تو بادشاہوں یا وزیر اعظم کے پاس ہوتا تھا جس طرح آج بھی برطانیہ میں بادشاہ اور ملکہ یا شہزادی ایک روایت کے طور سے موجود ہیں ان کی سرگرمیوں کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں بالکل اسی طرح خلافت کا ادارہ بھی روایتی طور پر ترکی کے پاس تھا اور اس کی سرحدیں پورے عرب ممالک تک پھیلی ہوئی تھیں، امت مسلمہ کا ایک جذباتی تعلق خلافت سے قائم و دائم تھا لیکن عیسائیوں اور یہودیوں کو یہ روایتی خلافت بھی پسند نہیں تھی اور وہ اس کو اس لیے بھی ختم کرنا چاہتے تھے کہ انہیں خوف تھا کہ امت مسلمہ کا ایک جذباتی تعلق ایک مرکز سے قائم ہو نے کی وجہ سے یہ کسی وقت بھی متحد ہو سکتے ہیں لہذا یہودیوں اور عیسائیوں نے مل کر مسلمانوں کے خلاف سازشی جال بنائے اس میں ہمارے کچھ سادہ لوح مسلمان مملکتیں بھی شامل ہو گئیں۔ اس کی تفصیل بہت لمبی ہے بس یوں سمجھیے کہ بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں ترکوں کی خلافت کا اختتام ہوگیا بیسویں صدی میں مسلمانوں کے خلاف دو اہم واقعات ہوئے ایک تو یہ کہ خلافت کا ادارہ ختم ہوگیا دوسرے یہ کہ فلسطین کے قلب میں اسرائیل کا قیام عمل میں آگیا ویسے تو اس صدی میں اور بھی اہم حادثات ہوئے دو عالمی جنگیں ہوئیں جن میں دس کروڑ افراد ہلاک و زخمی ہوئے جاپان پر امریکا نے دو ایٹم بم گرائے لیکن اسی صدی میں مسلمانوں کے حق میں بھی دو قابل ذکر واقعات ہوئے ایک تو یہ کہ پاکستان کا قیام عمل میں آیا دوسرے یہ کہ روس جیسی سپر پاور کو افغان مسلمانوں کے ہاتھوں شکست ہوئی۔خلافت کا ادارہ ختم ہونے میں افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس میں ہمارے کچھ عرب ممالک کا بھی عمل دخل تھا جب ترکوں کی خلافت ختم ہوئی کچھ مسلم ممالک میں خوشیاں منائی گئیں لیکن زیادہ تر مسلم ممالک میں اس پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا لیکن برصغیر کا معاملہ الگ ہے کہ یہاں کے مسلمانوں نے خلافت کی بحالی کے لیے باقاعدہ تحریک خلافت چلائی، برصغیر کی حدود میں اس وقت تین ممالک پاکستان، بھارت اور بنگلا دیش ہیں اس لیے پورے برصغیر میں بڑی زبردست تحریک خلافت چلائی گئی ایک ہندو رہنما کو اس تحریک خلافت کا سربراہ بنایا گیا چونکہ برصغیر میں برطانیہ کی حکومت تھی اور برطانیہ ہی کی سازشوں کی وجہ سے خلافت ختم ہوئی تھی اس لیے برطانوی حکمرانوں کو یہ پیغام جانا ضروری تھا کہ آپ کے اس سازشی اقدام کے برصغیر کے ہندو اور مسلمان سخت مخالف ہیں تحریک خلافت جب ناکام ہوئی تو تحریک پاکستان نے اس کی جگہ لے لی اور زیادہ تر وہی لوگ تھے جو تحریک خلافت چلا رہے تھے اور انہوں نے ہی پھر پاکستان بنایا۔
برصغیر میں جب تحریک خلافت چل رہی تھی تو ترکی کے عوام اس کا بہت باریک بینی سے جائزہ لے رہے تھے کہ پور دنیا میں واحد یہ خطہ ہے جس میں ان کے حق میں آواز اٹھائی گئی اور وہ یہ بھی دیکھ رہے تھے یہاں کے مسلمان بڑے اخلاص کے ساتھ اس تحریک میں جان و مال کی قربانی دے رہے تھے یہی وجہ ہے کہ ترکی کے عوام پاکستانیوں سے ایک منفرد اور خاص لگائو رکھتے ہیں ملکی سطح پر بھی پاکستان اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ سے اچھے بلکہ قابل رشک رہے ہیں۔ ایوب خان کے زمانے میں پاکستان، ایران، ترکی، تین ملکوں کا تجارتی و اقتصادی اتحاد RCD کے نام سے بنا تھا Regional cooperation for development یہ تین ملکوں کا بلاک کافی دن تک قائم رہا۔
اب سے پانچ چھے سال قبل میانمر (برما) میں رہنگیا کے مسلمانوں کا میانمر کی فوج نے قتل عام کیا امت مسلمہ کی محبت کے جذبوں سے لبریز ترکی کے موجودہ سربراہ اپنی بیگم کو ساتھ لیکر خود بہ نفس نفیس رہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے پہنچے تھے پاکستان میں حکومتی سطح پر تو کوئی خاص کام نہیں ہوا لیکن عوامی سطح پر الخدمت فائونڈیشن سمیت دیگر فلاحی تنظیموں نے رہنگیا کے مسلمانوں کی مدد کی، اب سے دو تین برس قبل بنگلا دیش میں جماعت اسلامی کے ان رہنمائوں کو جعلی اور جھوٹے الزامات لگا کر عدالتوں سے پھانسی کی سزائیں دی جارہی تھیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ملک سے غداری کی تھی حالانکہ ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے اس وقت کی قانونی حکومت پاکستان کا ساتھ دیا تھا اس حوالے سے ترکی کا کردار بڑا قابل رشک رہا جب کسی کو پھانسی کی سزا ہوتی فورا ترکی کی طرف سے بنگلا دیش کو پیغام دیا جاتا کہ ان کو ہمارے حوالے کردیں یا ان کی سزائوں کو معاف کردیں جبکہ پاکستانی حکمران منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے رہے ایک موقع پر تو ترکی نے احتجاجا بنگلا دیش سے اپنا سفیر بھی واپس بلا لیا تھا پاکستان کے حق میں پاکستانی فوج کا ساتھ دینے کے جرم میں جماعت اسلامی کے جو لیڈران پھانسی کا پھندا چوم رہے تھے ان کے لیے تو اصلا پاکستان کو بھرپور آواز اٹھانا چاہیے تھا جبکہ ترکی نے اس حوالے سے بہت بڑھ چڑھ کر آواز اٹھائی بھرپور احتجاج کیا سفیر واپس بلا کر بھی اپنا احتجاج سفارتی سطح پر ریکارڈکرایا۔
یہ خبر پڑھ کر تمام پاکستانیوں کو بڑا صدمہ ہوا کہ آج وہی ترکی جو ہمارے(باقی صفحہ 7بقیہ نمبر)
لیے اپنا دم بھرتا تھا اس کے شہر انقرہ میں بنگلا دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد کے والد اور پاکستان توڑنے کے ذمے دار شیخ مجیب الرحمن کا مجسمہ نصب کیا گیا ہے اور اس تقریب میں بنگلا دیش کے ترکی میں سفیر بھی موجود تھے یہ کیسی کایا پلٹ ہو گئی پاکستانی حکمرانوں کو اس حوالے سے ترکی کی حکومت سے کچھ گفت شنید تو کرنا چاہیے تھی اسی لیے یہ سوال تو بنتا ہے کہ کیا ترکی پاکستان سے ناراض ہے۔