قانونِ تحفظِ ناموسِ رسالت

آئیے! آج اس مسئلے پر تفصیل سے بات کرلیتے ہیں: ہمارے ہاں ایک طبقہ وہ ہے جو نظریاتی اور فکری اعتبار سے لبرل ہے، لیکن چونکہ ہمارے ہاں منافقت کا چلن ہے، اس لیے یہ لوگ مسلم معاشرے کے اجتماعی مزاج کی وجہ سے اہلِ مغرب کی طرح اپنے نظریے کا علانیہ اظہار نہیں کرسکتے، اس کے برعکس آپ کسی بھی یورپی ملک کے بارے میں جاننا چاہیں کہ وہاں لوگ اعتقادی اعتبار سے کن مذاہب کے حامل ہیں، تو آپ کو ایک بڑی تعداد لامذہب، ملحدین، منکرینِ خدا اور منکرینِ آخرت یعنی مذہب سے منحرفین کی مل جائے گی، وہ اس کا اظہار برملا کریں گے، گوگل پر اس کے اعداد وشمار دستیاب ہوتے ہیں۔ اس طبقے کے نزدیک تحفظِ ناموسِ رسالت اور توہینِ مذہب کا کوئی قانون سرے سے ہونا ہی نہیں چاہیے، ہر ایک کو مادر پدر آزادی ہو، جو چاہے کہتا پھرے۔ یہ ہمیں بھی معلوم ہے کہ قانونِ تحفظِ ناموسِ رسالت اہلِ مغرب کو کسی بھی درجے میں قبول نہیں ہے، کیونکہ ان کے ہاں ہولوکاسٹ کے استثنا کے ساتھ اظہارِ رائے اور پریس کی آزادی عقیدے کا درجہ رکھتی ہے، نہ صرف یہ کہ وہ اس پر مفاہمت کے لیے تیار نہیں ہیں، بلکہ وہ سیاسی، سفارتی اور معاشی دبائو کے ذریعے اس نظریے کو امتِ مسلمہ اور مسلم ممالک پر مسلط کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ یہ غیر جمہوری روش ہے۔
دوسرا طبقہ وہ ہے جو بظاہر کہتا ہے کہ مقدساتِ دین کی توہین ہونی تو نہیں چاہیے، لیکن ان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ اسے قانون میں قابلِ سزا جرم قرار نہیں دینا چاہیے۔ اہلِ علم میں جنابِ جاوید غامدی اور ان کے فکری پیروکار اس نظریے کے حامل ہیں، نیز الیکٹرونک وپرنٹ میڈیا میں لبرلز کا ایک بڑا طبقہ ہے جو اسی نظریے کا حامل ہے، ان کا موقف یہ ہے: کسی کو قانون اور سزا کے جبر سے کسی نظریے کا پابند نہیں بنایا جاسکتا، اس کے لیے تعلیم وتربیت اور فہمائش سے کام لینا چاہیے، یہ طبقہ مغرب کے لیے بھی قابلِ قبول ہے۔ لیکن عام مسلمانوں کے لیے، خواہ وہ عملی اعتبار سے کتنے ہی پستی کا شکار ہوں، یہ نظریہ قابلِ قبول نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جاوید غامدی اور ان کے پیروکار ہمارے لبرل میڈیا اور لبرل حکمرانوں کے نزدیک رول ماڈل ہیں، وہ توہینِ رسالت کے جرم کو حدِ شرعی ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، میرے ساتھ ٹیلی ویژن مباحثے میں انہوں نے علانیہ کہا: یہ حدِ شرعی نہیں ہے، سب سے پہلے علامہ ابن تیمیہ نے یہ موقف اختیار کیا اور پھر سب اسے لے کر آگے چل پڑے، حالانکہ سلف سے خلف تک اس پر کتابیں موجود ہیں۔ تیسرا طبقہ یہ تو مانتا ہے کہ توہینِ مذہب نہیں ہونی چاہیے اور اس کے لیے قانون بنانے میں بھی حرج نہیں ہے، لیکن اس پر ان کا تقریبا اجماعِ اکثری ہے کہ اس کا غلط استعمال ہورہا ہے، کیونکہ جو شخص ایسے جرم کا ارتکاب کرتا ہے، وہ قانون کی گرفت میں آنے کے بعد انکار کردیتا ہے۔ ہرجرم کے ثبوت کے لیے کم از کم معیارِ شہادت کافی ہوتا ہے، یہ نہیں ہوتا کہ سو آدمیوں نے ایک جرم واقع ہوتے ہوئے دیکھا تو سوال اٹھایا جائے کہ سب نے آکر گواہی کیوں نہ دی۔ ممتاز حسین قادری شہید کے کیس کی ریویو پٹیشن میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے دفاع کے وکلا کو کہا: آپ لوگ اپنے دلائل لکھ کر دیدیں انہوں نے دلائل لکھ کردیے اور پھر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ان دلائل کو پڑھے بغیر لپیٹ کر ایک طرف رکھا اور اپنا طے شدہ فیصلہ صادر کردیا۔ الغرض فاضل جج صاحب تو وکلا کو سننے کے لیے تیار ہی نہ تھے، جبکہ وہ وکلا کوئی روایتی مولودی نہیں تھے، ان میں سے ایک سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ خواجہ محمد شریف اور دوسرے لاہور ہائی کورٹ ہی کے ایک سابق جج جسٹس نذیر اختر تھے، ان دونوں کو عدالتی تجربہ بھی حاصل تھا۔ اس پر اخبارات نے رپورٹ کیا: ان دونوں حضرات کی آنکھوں میں آنسو تھے، یہ سارا ماجرا ہمیں ان کے معاون جامعہ ضیا العلوم رضویہ راولپنڈی کے علامہ سید حبیب الحق شاہ نے بیان کیا، علامہ صاحب انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے ایل ایل ایم کا کورس کیے ہوئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ ان کے دلائل کا مطالعہ کرتے اور اگر ان کے نزدیک وہ معیار پر پورا نہیں اترتے تھے تو ان کا ذکر کر کے دلائل سے ان کا رد کرتے، عدالتی طریقہ کار تو یہی ہوتا ہے۔ پاکستان کے تمام مسلمہ مکاتبِ فکر کے جمہور علما اور عام المسلمین قانونِ تحفظِ ناموسِ رسالت کی ضرورت کے قائل اور قانون کی طاقت سے نافذ کرنے کے حامی ہیں تاکہ لوگوں کو توہینِ مذہب کی ناپاک جسارت کرنے کی ہمت نہ ہو اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دینی مقدسات کی حرمت محفوظ رہے۔ ہمارا مطالبہ تو یہ ہے کہ ریاست وحکومت اپنی آئینی وقانونی ذمے داری کو پورا کرے، کون ذی شعور ایسا ہے جو یہ کہے گا کہ ملک میں انارکی پھیلے، لاقانونیت کا راج ہو اور لوگ قانون کو ہاتھ میں لیں۔ مسئلہ یہ ہے: ملک میں لاقانونیت کا کوئی بھی واقعہ ہو، کسی تحقیق وتفتیش اور اس کے نتائج آنے سے پہلے ہی اسے مذہب اور اہلِ مذہب کے سر تھوپ کر مذہب کو کٹہرے میں کھڑا کردیا جاتا ہے، میڈیا کی کمین گاہوں میں رونق افروز لبرلز کے لیے یہ سنہری موقع ہوتا ہے، ان کے دلوں میں دیندار طبقات کے لیے عدم قبولیت اور نفرت کے جو جذبات پوشیدہ ہیں، ایسے ناخوشگوار واقعات کو ان کے اظہار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہماری دیانتدارانہ رائے ہے کہ قانونِ تحفظِ ناموسِ رسالت کے ضابطہ کار کو مشکل بنانے کی وجہ سے زیادہ مسائل پیدا ہوئے ہیں، کیونکہ جنرل پرویز مشرف کے عہدِ حکومت میں یہ ضابطہ بنایا گیا کہ جب تک ایس ایس پی کی سطح کا افسر مطمئن نہ ہو، توہینِ مذہب کی ایف آئی آردرج نہیں ہوسکتی۔ ہم بار ہا میڈیا پر کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں ایک عام شہری کی ایس ایچ او تک رسائی آسان نہیں ہوتی، چہ جائیکہ ایس ایس پی تک رسائی حاصل ہو۔ ہونا یہ چاہیے کہ فورا ایف آئی آر درج ہو جائے، جس شخص پر الزام ہے، وہ پولیس کی حفاظتی تحویل میں چلا جائے گا، پھر ان مقدمات کا براہِ راست فیڈرل شریعت کورٹ میں ٹرائل ہو اور ان کے حتمی فیصلے کے لیے ایک سے تین ماہ تک کی مدت مقرر کی جائے، ماتحت عدالتوں کے جج صاحبان ان مقدمات کا دبائو برداشت نہیں کرسکتے۔
فیڈرل شریعت کورٹ میں ایسے جج مقرر کیے جائیں جو قانون کے علم کے ساتھ ساتھ دینی علم بھی رکھتے ہوں، اس سے قانون کے غلط استعمال کے راستے مسدود ہوجائیں گے۔
عرصے سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ اگر کوئی کسی پر توہینِ مذہب کا الزام لگائے اور وہ عدالتی معیار پر ثابت نہ ہو، تو اسے وہی سزا دی جائے جو قانون میں اس جرم کی ہے۔ پس بہتر ہوگاکہ ایک جرم کو ہدف بنانے کے بجائے تمام جرائم کے لیے یہی معیار مقرر کردیا جائے، اگر کسی پر قتلِ عمد کا الزام لگا اور گواہوں نے عدالت میں گواہی دی، مگر وہ گواہی عدالتی معیار پر پوری نہ اتری اور رد کردی گئی تو کیا ان گواہوں کو سزائے موت یا عمر قید کی سزا دی جائے گی، الغرض اس طرح کی تجویزیں صرف توہینِ رسالت کے جرم کے لیے دی جاتی ہیں، پورے نظامِ شہادت پر ان کا اطلاق کرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہے۔
ہم اس پر تفصیل سے لکھ چکے ہیں: شہادتِ کاذبہ اور شہادتِ مردودہ میں فرق کو ملحوظ رکھنا ہوگا، شہادتِ کاذبہ تو یہ ہے کہ کوئی جان بوجھ کر منصوبہ بندی کے ساتھ کسی پر جھوٹا الزام لگائے اور قطعی شواہد سے اس کا جھوٹا ہونا ثابت ہوجائے،
اس کے لیے قانونِ شہادت میں سزا مقرر ہے، اس کے نفاذ پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ لیکن شہادتِ مردودہ اسے کہتے ہیں کہ ایک یا زائد اشخاص نے ایک وقوعے کو دیکھا، دیانت داری سے شہادت دی، مگر وکیلوں کی جرح کے سبب گواہ کا معمولی تضاد سامنے آگیا اور جج نے اسے رد کردیا۔ قتل کے مقدمات سے لے کر عام مقدمات تک ہماری عدالتوں میں روز ایسا ہوتا ہے، اگر اس کی بنیاد پر ہر گواہ کو اس جرم کی سزا دینے کا قانون بنادیا جائے، تو پھر نہ کوئی ایف آئی آردرج کرائے گا، نہ عدالتوں میں شہادت دینے آئے گا، لوگ اپنی عدالتیں لگائیں گے اور خود فیصلے کریں گے۔ پس یہ ایک انتہائی خطرناک صورتِ حال ہوگی، کیونکہ جب آپ قانون کا راستہ مسدود کردیں تو لاقانونیت کو نفوذ کا موقع مل جاتا ہے، ہم نہ اس کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں اور نہ اس کا جواز پیش کر رہے ہیں، بس خطرے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ اگر کسی کو ہمارے اس موقف سے اختلاف ہو تو قانونِ تحفظِ حقوقِ نسواں پاس ہونے کے بعد کا تفصیلی سروے کرلیں، قتلِ ناحق اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات ماضی کی بہ نسبت زیادہ ہورہے ہیں اور ان میں سے زیادہ ترتو میڈیا میں رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ پارلیمانی کمیٹیاں بنانے کا مقصد یہ ہوتا ہے: ہر مسودہ قانون کا تفصیلی جائزہ لیا جائے، ماہرین اور معاشرے کے مختلف طبقات کی رائے لی جائے، اس کے منفی اور مثبت نتائج کا جائزہ لیا جائے، پھر تمام تر چھان بین، حذف واضافہ اور ترامیم کے بعد اسے حتمی شکل دے کر پارلیمنٹ سے منظور کرایا جائے۔ مگر جس ملک کی پارلیمنٹ میں چند گھنٹوں میں ایک سو ایک آئینی ترامیم یا تینتیس قوانین منظور ہوجائیں، جن کا ارکان نے نہ مطالعہ کیا ہو، نہ انہیں سمجھا ہو، تو پھر ایسے قوانین کے منفی نتائج ضرور برآمدہوں گے۔ میڈیا کا حال یہ ہے: ایک رپورٹر نے رابطہ کیا اور کہا: مفتی صاحب! سانحہ سیالکوٹ پر آپ سے بات کرنی ہے، ہم نے پوچھا: آپ کا سوال کیا ہے، انہوں نے فرمایا: یہی کہ سیالکوٹ جیسے واقعات ہونے چاہییں یا نہیں، ہم نے کہا: تئیس کروڑ کی آبادی میں کوئی ایک بھی نیم پاگل آدمی آپ کو ملا ہے جس نے یہ کہا ہو کہ ایسے واقعات ہونے چاہییں، سو ہمارے میڈیا کا معیار یہ ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭