سقوط ڈھاکا اور حمود الرحمن کمیشن رپورٹ

سقوط دھاکا کے المناک سانحے کو آج نصف صدی کا عرصہ گزر گیا ہے۔ آج کی نئی نسل سقوط دھاکا کے اسباب و محرکات کو جاننا چاہتی ہے۔ اس موضوع پر بیسویں کتابیں لکھی جاچکی ہیں تاہم اس سلسلے کی سب سے اہم دستاویز خود حکومت پاکستان کے قائم کردہ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ ہے جس میں محتاط انداز میں اس سانحے کے محرکات کو بیان کیا گیا ہے۔ جنوری 2001 میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے اس رپورٹ کا ایک حصہ پبلک کردیا تھا۔ جب کہ رپورٹ کے متعدد حساس گوشے ہنوز پردہ اخفا میں ہیں۔ رپورٹ کا کچھ حصہ شائع ہونے پر ہم نے ماہانہ الشریعہ میں چند گزرشات لکھی تھیں جو نذر قارئین ہیں۔
حکومت نے آخر کار حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کا ایک اہم حصہ عوام کی معلومات کے لیے کیبنٹ ڈویژن کی لائبریری میں رکھ دیا ہے اور اس کے اقتباسات قومی اخبارات میں شائع ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ 1971 میں ملک سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلادیش کے قیام کے بعد مغربی پاکستان کے باقی ماندہ حصے میں قائم ہونے والی بھٹو حکومت نے عوامی مطالبے پر اس وقت کے سپریم کورٹ آف پاکستان کے سربراہ جسٹس حمود الرحمن مرحوم کی سربراہی میں ایک اعلی سطحی عدالتی کمیشن قائم کیا تھا، جس میں پنجاب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس انوار الحق مرحوم اور سندھ بلوچستان ہائی کورٹ کے سربراہ جسٹس طفیل علی عبدالرحمن مرحوم بھی شامل تھے۔ کمیشن کے ذمے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب و عوامل کی نشاندہی اور اس کے ذمے دار افراد کے تعین کے ساتھ ساتھ اس سلسلے میں ضروری کارروائی کے لیے سفارشات اور تجاویز پیش کرنا تھا۔
کمیشن نے 200 سے زیادہ افراد کے بیانات اور 70 کے لگ بھگ شہادتیں قلمبند کرنے کے بعد اپنی رپورٹ پیش کردی تھی جو ٹاپ سیکرٹ قرار دے دی گئی اور ملک کے عوام کو اس کی تفصیلات کا علم نہ ہوسکا۔ مختلف حلقوں کی طرف سے اس رپورٹ کی اشاعت کا مسلسل مطالبہ کیا جاتا رہا، مگر اس رپورٹ کے بعد ملک میں قائم ہونے والی کسی حکومت نے بھی اس مطالبے پر توجہ نہ دی۔ حتی کہ اس رپورٹ کے کچھ حصے مبینہ طور پر چوری ہوئے اور بھارت کے بعض اخبارات نے گزشتہ دنوں انہیں شائع کردیا، جس پر اس رپورٹ کی اشاعت کا مطالبہ ایک بار پھر منظر عام پر آیا اور وزیرداخلہ جناب معین الدین حیدر کی سربراہی میں ایک کمیٹی نے رپورٹ کا ازسرنو جائزہ لے کر اس کے ایک حصے کی اشاعت کی سفارش کردی، جس پر اسے کیبنٹ ڈویژن کی لائبریری میں عوام کے مطالعے کے لیے رکھ دیا گیا ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق رپورٹ کے 8 حصوں میں سے صرف 2 حصے اوپن کیے گئے ہیں۔ جب کہ باقی 6 حصے بدستور صیغہ راز میں ہیں اور اس کے مندرجات کو خارجہ تعلقات کے حساس امور قرار دے کر حسب سابق ناقابل اشاعت کے زمرے میں رکھا گیا ہے، تاہم جو حصہ شائع ہوا ہے وہ بھی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے اور اس نے ان تمام شبہات، خدشات اور الزامات کی تصدیق کردی ہے جو اس عظیم سانحے کے حوالے سے اس وقت کی فوجی و سیاسی قیادت اور نوکر شاہی کے بارے میں عوامی حلقوں میں وقتا فوقتا سامنے آتے رہے ہیں۔ روزنامہ جنگ لاہور، نوائے وقت لاہور اور اوصاف اسلام آباد نے 31 دسمبر 2000 کے شماروں میں حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کی جو تفصیلات شائع کی ہیں، ان میں سے چند اہم نکات درج ذیل ہیں۔
٭ جنرل یحیی خان، جنرل عبدالحمید خان، جنرل پیرزادہ، جنرل مٹھا اور ان کے رفقا نے 25 مارچ 1969 کو صدر محمد ایوب خان مرحوم کو اقتدار سے ہٹانے کی سازش کی، جس پر ان کے خلاف کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔٭ جنرل یحیی خان سمیت 15 اعلی فوجی افسران اپنی نااہلی، کرپشن، بدعنوانی اور بدکرداری کی وجہ سے تقسیم ملک کے ذمے دار ہیں، ان کا کورٹ مارشل کیا جائے۔ ٭ ان فوجی افسران نے اپنے مشترکہ مفاد کی خاطر سیاسی جماعتوں پر دبائو ڈالنے اور انہیں دھمکانے کے علاوہ روپے پیسے کا لالچ دے کر انتخابات کے نتائج اپنے حق میں کرانے کی کوشش کی۔
٭ پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے منتخب اسمبلی میں عوامی لیگ کا سیاسی طور پر مقابلہ کرنے کے بجائے ڈھاکا میں 3 مارچ کو بلائے جانے والے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے ڈھاکا جانے والے ارکان اسمبلی کی ٹانگیں توڑ دینے کی دھمکی دے کر انتہائی غیر جمہوری طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا۔مسٹر بھٹو نے دو اکثریتی جماعتوں کی تھیوری اور گرینڈ کولیشن کی تجویز پاکستان کے وفاق کو بچانے کے لیے نہیں بلکہ کنفیڈریشن کے لیے پیش کی۔ ٭ لیفٹیننٹ جنرل عمر نے سیاسی جماعتوں کو قومی اسمبلی کا اجلاس جلد بلانے کی مخالفت کرنے پر اکسایا۔ ٭ ڈھاکا میں بلایا جانے والا قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ عرصے کے لیے ملتوی کرنے پر عوامی لیگ نے سول نافرمانی شروع کردی، جو اس قدر بھرپور تھی کہ جنرل ٹکا خان مشرقی پاکستان کا گورنر مقرر ہو کر ڈھاکا پہنچے تو انہیں حلف اٹھانے کے لیے کوئی جج میسر نہیں تھا۔ ٭ یحیی خان نے عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن پر دبائو ڈالا کہ وہ دستور سازی اور چھے نکات کو نظرانداز کرکے حکومت سازی میں پیپلز پارٹی سے تعاون کریں۔
٭ شیخ مجیب الرحمن واجبی سطح کے لیڈر تھے، چھے نکات ان کے مرتب کردہ نہیں تھے اور نہ ہی ان میں اتنی اہلیت و صلاحیت تھی بلکہ یہ چھے نکات ملک کے سب سے بڑے سیاسی تنازعے کی بنیاد بنے۔ مشرقی پاکستان کے ینگ سی ایس پی افسران کے ایک گروپ نے مرتب کیے تھے اور انہیں بیرونی عوامل کی پشت پناہی حاصل تھی، جنہوں نے ان چھے نکات کی تشہیر اور مشرقی پاکستان کے عوام کو ان کے حق میں تیار اور متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ٭ تین مارچ کو ڈھاکا میں عوامی لیگ کے احتجاجی جلسہ پر فوج کی فائرنگ سے ہزاروں افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔
٭ 25 مارچ کو فوج نے ڈھاکا میں آدھی رات کو پوزیشن سنبھال کر فوجی ایکشن شروع کیا، جس کے نتیجے میں 50 ہزار کے لگ بھگ افراد جاں بحق ہوئے۔ ٭ جنرل یحیی خان اور ان کے ساتھی جرنیلوں کا اکثر وقت عورت اور شراب کے ساتھ مصروف گزرتا تھا اور اس مقصد کے لیے راولپنڈی صدر میں صدر یحیی خان کا ذاتی بنگلا بدکاری کا اڈہ بن گیا تھا۔ ٭ رپورٹ میں ایک درجن سے زائد عورتوں کی فہرست اور کوائف دیے گئے ہیں جن کے شب و روز یحیی خان اور ان کے ساتھی جرنیلوں کے ساتھ گزرتے تھے اور وہ دوسری عورتیں بھی سپلائی کرتی تھیں۔ ٭ یحیی خان اکثر اوقات رات سات آٹھ بجے ڈنر کے بہانے ایوان صدر سے نکلتے اور صبح واپس آتے۔
٭ صدر یحیی خان نے صدارتی آفس میں جانا بھی ترک کر رکھا تھا اور بھارت کے ساتھ جنگ کے دوران جی ایچ کیو کے آپریشن روم میں وہ صرف دو تین بار گئے۔
٭ نومبر 1971 میں عین حالت جنگ کے دوران یحیی خان نے گورنر ہائوس لاہور میں تین روز ملکہ ترنم نور جہاں کے ساتھ بسر کیے۔ ٭ جنرل نیازی پان اسمگل کرتے تھے، رشوت لیتے تھے اور رقاصائوں کے گھروں میں جاتے تھے۔
٭ بریگیڈیئر حیات اللہ نے مقبول پور کے محاذ جنگ میں عورتیں بنکرز اور مورچوں میں طلب کرلیں۔ ٭ بریگیڈیئر جہانزیب ارباب نیشنل بینک کی سراج گنج شاخ سے ایک کروڑ پینتیس لاکھ روپے لوٹنے کی واردات میں اپنے دوسرے 6 فوجی افسر ساتھیوں سمیت ملوث ہیں۔ ٭ جی ایچ کیو نے جنرل نیازی کو بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا حکم نہیں دیا، یہ فیصلہ جنرل نیازی کا ذاتی تھا۔
یہ ہے وہ ایک ہلکا سا خاکہ اس پس منظر کا جو مملکت خداداد پاکستان کے دو حصوں میں بٹ جانے اور سقوط ڈھاکا جیسے عظیم ملی سانحہ کا باعث بنا، لیکن سوال یہ ہے کہ ہم نے اس سے کیا سبق حاصل کیا؟ اور 1971 کے بعد ربع صدی سے زائد عرصہ میں مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے، اس طرح کے اسباب و عوامل کو روکنے اور حالات کو بہتر بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے؟ کیا ایسا تو نہیں کہ ہم نے جرم اور مجرم دونوں پر پردہ ڈال کر خود کو اندرونی و بیرونی سازشوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے اور حالات کی اصلاح کے لیے سقوط ڈھاکا جیسے کسی اور سانحہ کا انتظار کررہے ہیں؟
٭٭٭٭٭٭٭