”مسئلہ فلسطین بدترین انسانی المیہ”

مسئلہ فلسطین ایک بدترین انسانی المیہ بن چکا ہے۔ افسوس، ”مہذب دنیا” کئی دہائیوں سے فلسطینیوں کے قتلِ عام پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ غزہ اور غربِ اردن کھلی چھت کے جیل خانے ہیں، بلکہ انھیں وسیع و عریض عقوبت کدے کہنا زیادہ مناسب ہوگا، کہ جیل میں بند قیدیوں کو غذا، لباس اور علاج معالجے کی سہولت فراہم کی جاتی ہے، نظربند قیدیوں کو نظامِ انصاف تک رسائی حاصل ہوتی ہے، جبکہ پنجرے میں بند فلسطینی بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم ہیں۔ جہاں تک مسئلہ فلسطین کے حل کا تعلق ہے تو اس کے لیے نہ کسی کمیشن کی ضرورت ہے اور نہ اضافی مذاکرات کی۔ اگر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر اْن کی روح کے مطابق عمل ہو تو یہ مسئلہ بھی حل ہوسکتا ہے۔ بحر روم کے کنارے شام سے مصر تک پھیلی ہوئی طویل ساحلی آبادی کوفلسطین کہاجاتاہے۔تقریبا27 ہزار مربع کلو میٹر کے رقبہ پر مشتمل یہ سرزمین عرصہ درازتک انبیاء رسل کا مرکزومرجع اورمسکن ومدفن رہی ،اسی بابرکت خطہ ارض میں وہ مقدس شہر بھی واقع ہے جسے قدیم تاریخ میں ”ایلیا”، عربی میں ”القدس” اور اردو میں ”بیت المقدس” کہا جاتا ہے۔ یہ بحر روم سے 52 کلو میٹر ، بحر احمر سے 250 کلو میٹر اور بحر مردار سے 22 کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ بحر روم سے اس کی اونچائی 750 میٹر اور بحر مردار کی سطح سے اس کی بلندی 1150 میٹر ہے۔اس مقدس شہر کی تاریخ ایسی ہنگامہ آرائیوں اور معرکہ خیزیوں سے بھری پڑی ہے جس میں تین آسمانی مذاہب کے مقدس مقامات و آثار پائے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے بیت المقدس تینوں ہی آسمانی مذا ہب اسلام،عیسائیت ا ور یہودیت کے نزدیک قابل احترام اور لائق تعظیم ہے ،اہل اسلام کے نزدیک اس لیے کہ یہیں مسجد اقصی ہے جو ان کا قبلہ اول اور جائے معراج ہے۔یہی وہ باعظمت ارض مقدس ہے ؛جس کا تعارف کرواتے ہوئے فاتح اعظم سلطان صلاح الدین ایوبی اپنے سپاہیوں سے فرمایا : ”اے میرے رفیقو!16ہجری کا ربیع الاول یاد کرو جب عمر و بن العاص اور ان کے ساتھیوں نے بیت المقدس کو کفار سے آزاد کرایا تھا۔ حضرت عمر اس وقت خلیفہ تھے ، وہ بیت المقدس گئے ،حضرت بلال ان کے ساتھ تھے ، حضرت بلال رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایسے خاموش ہوئے تھے کہ لوگ ان کی پر سوز آواز کو ترس گئے تھے ، انہوں نے اذان دینی چھوڑ دی تھی لیکن مسجد اقصیٰ میں آکر حضرت عمر نے انہیں کہا کہ بلا ل! مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کے درودیوار نے بڑی لمبی مدت سے اذان نہیں سنی۔ آزادی کی پہلی اذان تم نہ دو گے ؟ حضور اکرم ۖکی وفات کے بعد پہلی بار حضرت بلا ل نے اذان دی ، اور جب انہوں نے کہا کہ اشھد ان محمد رسول اللہ۔تو مسجد اقصیٰ میں سب کی دھا ڑیں نکل گئی تھیں”۔ یہ امر مسلمانوں کے لیے باعث ننگ وعارہے کہ ان کا قبلہ اول اوروہ زمین جو برکتوں کا خزانہ تھی آج ان کے ہاتھوں سے چھن چکی ہے۔ پہلی جنگ عظیم دسمبر 1917ء کے دوران انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کر کے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ یہود و نصاریٰ کی سازش کے تحت نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا اور جب 14 مئی 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا تو عرب اسرائیل جنگ چھڑی،اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہو گئے ، تاہم مشرقی یروشلم(بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آ گئے۔پھر جون 1967ء میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا۔ یوں مسلمانوں کا قبلہ اول ہنوز یہودیوں کے قبضے میں ہے ۔ مقبوضہ بیت المقدس کے ایک حصے پر قبضہ قبضے کے لئے 1948ء میں ہی کوششیں شروع کردی گئی تھیں اس کے بعد سے ناجائز صہیونی ریاست نے اس مقدس اسلامی شہر کاہر وہ نشان مٹانے کی کوشش شروع کردی جس سے اس شہر کا اسلامی عربی تشخص قائم تھا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے اس کے باقی ماندہ مشرقی حصے پر بھی قبضہ جما لیااس وقت سے لیکر آج تک اس مقدس اسلامی شہر کے اسلامی اوقاف کوتباہ کرنے کی مہم جاری رہی۔یہودی تخریب کاری کے ہاتھ اب مسجد اقصی کی جانب بھی دراز ہونا شروع ہو چکے ہیں اس سلسلے میں ہیکل سلیمانی کی بنیادوں کی تلاش کے نام پر مسجد اقصی کے نیچے سرنگیں کھودنے کا سلسلہ ایک عرصہ سے جاری تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ مقبوضہ بیت المقدس میں رہنے والے عرب مسلمانوں کی زندگیوں کو اس قدر مشکل بنانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہے کہ وہ یہاں سے نکل کر مقبوضہ فلسطین کے دوسرے علاقوں کی جانب نقل مکانی پر مجبور ہوجائیں۔ اسرائیلی
مقبوضہ بیت المقدس کے اسلامی اوقاف کو مسخ کرنے کی جو کوششیں کرتے رہے وہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قرادادوں کی بھی کھلی خلاف ورزی تھی، مسلمانوں سے زبردستی ان کی جائدادیں خرید کر انہیں منہدم کیا گیا اور ان کی جگہ یہودی بستیاں آباد کی گئیں اس وقت تک تقریبا 40سے زائدیہودی بستیاں بسائی گئی ہیں جن میں تقریبا دو لاکھ یہودی آباد ہیں تاہم اسرائیلی فوج کی جارحیت اور انتہا پسند یہودیوں کی طرف سے قبلہ اول پر یلغار نے ان خطرات کو مزید گھمبیر کردیا ہے۔ جب اسرائیل کی ایک عدالت نے مسجد اقصیٰ میں یہودیوں کو خاموش عبادت میں حصہ لینے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا اس سے مسجد اقصیٰ کو درپیش خطرات بڑھ گئے ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل کے توسیع پسندانہ، استعماری اور نوآبادیاتی ہتھکنڈوں کے تسلسل کے ساتھ ساتھ عرب ملکوں کی مجرمانہ خاموشی اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ صہیونی ریاست غرب اردن کے الحاق کے منصوبے پرعمل پیرا ہے۔ دراصل جب سے صہیونی ریاست نے فلسطین پرقبضہ کیا اس وقت سے فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری جاری ہے۔ تاہم وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ صہیونی ریاست کی فلسطینیوں کی املاک کی تباہی کا سلسلہ تیز ہوگیا ہے۔ مکانات مسماری فلسطینیوں کو دبائو میں لانے اور انہیں فلسطین سے نکل جانے کے لیے ایک حربے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭