افغانستان اور مسلم امہ کے لئے وزیر اعظم کی تڑپ!
اسلامی کانفرنس کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے وزیراعظم عمران خان کا خطاب ایک مدبر شخصیت کے خطاب کے مترادف ہے۔ اس سے قبل عمران خان نے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے تاریخی اور یادگار خطاب کیا تھا جو اسٹیٹس مین شپ کا آئینہ دار تھا۔ او آئی سی وزیر اعظم کے خطاب کو بھی تاریخ سنہرے حروف سے لکھے گی۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ایک مستحکم افغانستان ہی خطہ کے لئے بہتر ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال انتہائی سنگین ہے۔ افغان عوام کی مدد کرنے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ افغانستان سے ہمسایہ ممالک میں مہاجرین کی آمد روکنے کے لئے افغانستان میں مستحکم حکومت ضروری ہے۔ پاکستان پہلے ہی 30 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی چار دہائیوں سے میزبانی کررہا ہے۔ ہر معاشرے میں انسانی اور خواتین کے حقوق کا تصور مختلف ہے۔ ہمیں ان حقوق کے حوالے سے حساسیت کا ادراک کرنا ہو گا۔ اگرکوئی حکومت اپنے ملازمین، طبی عملہ کو تنخواہیں نہیں دے سکتی تو وہ مستحکم نہیں رہ سکتی۔ اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کو فلسطین اور کشمیر کے تنازع کے حل کے لئے متعلقہ قراردادوں پر زور دینا چاہیے۔ اسلاموفوبیا ایک اہم مسئلہ ہے۔ نائن الیون کے بعد یہ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ او آئی سی اس کے سدباب کے لئے اپنا کردار اد اکرے۔ افغانستان کے موجودہ بحران سے نکلنے کے لئے وزرائے خارجہ کونسل ٹھوس حکمت عملی وضع کرے۔ امید ہے کہ او آئی سی پرامن افغانستان کے لئے اپنا کردار اداکرے گی۔ وہ اتوار کو او آئی سی کے وزرائے خارجہ کونسل کے 17 ویں اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ اجلاس سے او آئی سی کے سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طہ، اسلامی ترقیاتی بنک کے چیئرمین ڈاکٹر محمد سلمان ، اقوام متحدہ کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری برائے انسانی حقوق، سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان، ترکی کے وزیرخارجہ میولت کاسگلو، اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی، نائیجیر کے وزیرخارجہ یوسف محمد اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی خطاب کیا۔
وزیراعظم عمران خان نے تمام شرکا کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی تعاون تنظیم کا یہ غیرمعمولی اجلاس افغانستان کے موجودہ بحران پر غور کے لئے طلب کیا گیا ہے۔ جتنی مشکلات افغا نستان کے عوام نے اٹھائیں کسی اور نے نہیں اٹھائیں۔ افغانستان کے حالات کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان نے اٹھایا۔ افغانستان چار دہائیوں سے خانہ جنگی اور عالمی جارحیت کا شکار ہے۔ یہاں کی ایک بڑی آبادی نے نقل مکانی کی۔ دنیا کے کسی ملک نے افغانستان سے زیادہ مسائل نہیں دیکھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات باعث اطمینان ہے کہ کانفرنس میں شریک تمام مہمان افغانستان کی صورتحال سے آگاہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کا بنکنگ کا نظام جمود کا شکار ہے۔ کسی بھی ملک کے بنکنگ کے نظام میں جمود سے اس ملک میں استحکام نہیں آ سکتا۔ افغانستان کا مسئلہ 4 کروڑ انسانوں کا مسئلہ ہے۔ افغانستان کے موجودہ بحران کے حل میں پہلے ہی تاخیر ہو چکی ہے۔ یہاں قائم ہونے والی جامع حکومت کے عبوری وزیرخارجہ نے عائد کی گئی تین شرائط کے حل کے عزم کا اعلان کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہر معاشرے میں انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کا تصور ہے۔ پاکستان میں خیبر پختونخوا کا کلچر افغانستان سے ملتا جلتا ہے۔ شہری اور دیہی علاقوں کے کلچر میں واضح فرق ہے۔ انہوں نے کہاکہ افغانستان میں حکومت کے پاس اپنے ملازمین یہاں تک کہ ڈاکٹروں اور طبی عملہ کو دینے کے لئے تنخواہیں نہیں۔ ایسے کوئی حکومت مستحکم نہیں رہ سکتی۔ افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کی روک تھام کے لئے وہاں ایک مستحکم حکومت کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے افغان جنگ کے بعد 80 ہزار جانوں کی قربانی دی ہے۔ 100 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان اٹھایا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اگر ترقی یافتہ ممالک کے لئے مہاجرین مسئلہ ہے تو پاکستان جیسے غریب ممالک کیسے لاکھوں مہاجرین کی میزبانی برداشت کر سکتے ہیں۔ امید ہے کہ او آئی سی پر امن افغانستان کے لئے اپنا کردار اداکرے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ اسلامی ترقیاتی بنک کے چیئرمین کی جانب سے فوری اور طویل المدتی اقدامات اہم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ افغانستان کے موجودہ بحران کے حل کے لئے ایک واضح روڈمیپ کے ساتھ سامنے آئیں تاکہ افغانستان میں اس بحران کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ وزیراعظم نے کہا کہ کشمیر اور فلسطین کے عوام ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ ان کے انسانی اور جمہوری حقوق پامال کئے جا رہے ہیں۔ انہیں اقوام متحدہ کی طرف سے دیئے گئے حقوق پر بھی عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ ہمیں اسلامی تعاون تنظیم کے فورم سے اس حوالے سے بھی کردار اداکرنا ہو گا۔ وزیراعظم نے
کہا کہ اسلامو فوبیا دنیا میں بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس کا آغاز نائن الیون کے بعد ہوا جو اب خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ نیوزی لینڈ کی ایک مسجد میں 50 سے زائد مسلمانوں کو شہید کر دیاگیا۔ مغرب میں اسلام کے پیغام سے آگاہی نہیں اسلام کا فہم نہ ہونے کی وجہ سے خلیج بڑھ ر ہی ہے۔ مغرب اسلام کے خلاف پراپیگنڈا کرتا ہے۔ وزیراعظم نے کہاکہ ہم نے رحمت اللعالمین اتھارٹی بنائی ہے۔ یہ اتھارٹی دنیا بھر کے مسلمان سکالرزسے مشاورت کرکے اسلام کے حقیقی تشخص کو اجاگر کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ اسلام ایک ہے اور وہ اسلام ہمارے نبی کریم کا ہے، نبی کریمدنیا کے تمام انسانوں کے لئے رحمت اللعالمین ہیں جس طرح اللہ تعالی تمام انسانوں کے رب العالمین ہیں اسی طرح حضور رحمت اللعالمین ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے رحمت اللعالمین اتھارٹی سے دنیا بھر میں اسلام کا اصل تصور اجاگر کرنا ہے۔ انہوں نے او آئی سی کے رکن ممالک سے کہا کہ وہ افغانستان کو بحران سے نکالنے کے لئے ٹھوس حکمت عملی وضع کریں۔ افغانستان کی مدد کرنا ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ افغانستان کی بڑی آبادی خط غربت سے نیچے ہے۔ یہ افغان عوام کی بقا کا مسئلہ ہے۔ افغان عوام کی مدد کرنے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال انتہائی سنگین ہے۔ انہوں نے کہا کہ پوری دنیا کی طرح ہماری معیشت بھی کورونا سے متاثر ہوئی ہے۔ اس لئے ہمارے لئے ممکن نہیں کہ ہم نئے مہاجرین کے سیلاب سے نبٹ سکیں یا دہشت گردی کے فتنے کا مقابلہ کر سکیں۔ ہم وسائل سے محروم ہیں اس لئے او آئی سی اور اقوام عالم کے لئے افغانستان کے مسائل کا حل نکالنا فرض اولین بنتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭