افغانستان کی بحالی کے لیے اسلامی کانفرنس

بالآخر افغانستان کی سنی گئی ۔ یہ امر کسی معجزے سے کم نہیں کہ اگست میں سقوطِ کابل کے بعدسے اب تک دنیا کے کسی ملک نے افغان عبوری حکومت کو تسلیم نہیں کیا لیکن ملک کے اندر بگڑتی ہوئی معاشی، سیاسی اور امن و امان کی صورتحال نے دنیا کو مجبور کردیا کہ وہ افغانستان کی ابتلا پر غور و خوص کرے، خاص طورپر اسلامی کانفرس کا ضمیر جاگا اور اس کے لیے بھی پاکستان نے غیر معمولی کاوشیں کیں اور او آئی سی نے اس امر کی اجازت دی کہ اسلامی وزرائے خارجہ کا 17واں غیر معمولی اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہو۔ اس سے قبل اسی طرح کا ایک اجلاس چالیس سال قبل منعقد کیا گیا تھا۔ تب افغان بحران کی ابتدا ہوئی تھی اور آج یہ بحران سونامی کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اس سنگین صورتحال میں اسلامی کانفرنس کے وزرائے خارجہ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں سیکرٹری جنرل یو این اوکے نمائندے نے بھی شرکت کی اور کئی یورپی ممالک کے مندوبین بھی خصوصی طور پر شریک ہوئے۔ کانفرنس کا انعقاد بجائے خود ایک بہت بڑی کامیابی ہے مگر کانفرنس میں کیے گئے متفقہ فیصلے تو کسی معجزے سے کم نہیں۔ وزرائے خارجہ کے کھلے اجلاس کے بعد بند کمرے میں گفت و شنید کے نتیجے میں ایک ایسی قراردار تیار کی گئی جس پر سبھی شرکا نے کامل اتفاق کیا اور حقیقت یہ ہے کہ یہ قرار داد افغانستان کے تمام مسائل کے حل کے لیے ایک روڈ میپ کی حیثیت رکھتی ہے۔
ا و آئی سی کے وزرائے خارجہ کے 17ویں غیر معمولی اجلاس میں منظور کی گئی متفقہ قرارداد میں اس بات پر زور دیا گیا کہ افغانستان میں معاشی بدحالی مہاجرین کے بڑے پیمانے پر انخلا کا باعث بنے گی۔ انتہا پسندی، دہشت گردی اور عدم استحکام کو فروغ ملے گا جس کے سنگین نتائج علاقائی اور بین الاقوامی امن و استحکام پر پڑیں گے۔ غربت سے نمٹنے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور اپنے شہریوں کو ضروری خدمات، خاص طور پر خوراک، صاف پانی، معیاری تعلیم، صحت کی خدمات کی فراہمی میں افغانستان کی مدد کرنے کی ضرورت اجاگر کرتے ہوئے انسانی امداد کی فوری فراہمی میں بین الاقوامی برادری، پڑوسی ممالک، ڈونر ایجنسیوں اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی کوششوں پر زور دیا گیا ہے۔ افغانستان کے مالی وسائل تک اس کی رسائی تباہی کو روکنے اور اقتصادی سرگرمیوں کو بحال کرنے میں اہم ہو گی۔ اسلامک ڈویلپمنٹ بینک کے زیراہتمام ایک ہیومینٹیرین ٹرسٹ فنڈ قائم کرنے اور افغان تحفظ خوراک پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ اجلاس میںاس بات کا بھی اعتراف کیا گیا کہ ترقی، امن، سلامتی، استحکام اور انسانی حقوق ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور باہمی طور پر ایک دوسرے کو تقویت دیتے ہیں۔ قرارداد میں افغان عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے او آئی سی کے رکن ممالک کے افغانستان میں امن، سلامتی، استحکام، ترقی، خود مختاری، آزادی، علاقائی سالمیت اور قومی اتحاد میں مدد دینے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔
افغانستان کے 38 ملین افراد میں سے60 فیصد لوگوں کو بھوک کے بحران کا سامنا ہے اور یہ صورتحال روز بروز بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ افغانستان میں بگڑتے ہوئے انسانی بحران کو انتہائی خطرناک قرار دیا گیا، خاص طور پر ورلڈ فوڈ پروگرام کی طرف سے جاری کردہ انتباہ کہ 22.8 ملین افراد افغانستان کی نصف سے زیادہ آبادی کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ 3.2 ملین بچے اور سات لاکھ حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین شدید غذائی قلت کے خطرے کا شکار ہیں۔ قرارداد میں افغانستان میں انسانی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اقتصادی تعاون کو جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس سلسلہ میں بڑے پیمانے پر توانائی، ٹرانسپورٹ اور مواصلاتی منصوبوں بشمول تاپی پائپ لائن بجلی کی ترسیل کے منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے نئے مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ افغان عوام کی زیادہ سے زیادہ فلاح و بہبود ہو سکے۔ بین الاقوامی برادری کی ان توقعات کو دہراتے ہوئے کہا گیا کہ تمام افغان قومی مفاہمت کو فروغ دینے، بین الاقوامی کنونشنز اور معاہدوں کی پابندی کرنے اور اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کی قراردادوں میں درج بین الاقوامی حکمرانی کے اصولوں پر عمل کرنے کے لیے اس تاریخی موقع سے فائدہ اٹھائیں۔قرارداد میں افغانستان اور خطے کے پائیدار امن، سلامتی، تحفظ اور طویل مدتی خوشحالی کے مشترکہ اہداف کو حاصل کرنے کے مقصد سے افغانستان کے پڑوسیوں کے ساتھ دوستانہ طرز عمل کے ساتھ ساتھ جامع حکومتی ڈھانچہ کے قیام کی اہمیت پر زور دیا گیا جو اعتدال پسند اور مستحکم ملکی اور خارجہ پالیسیوں کے لیے اہم ہے۔ قرارداد میں کہا گیا کہ دہشت گردی افغانستان، علاقائی ممالک اور عالمی برادری کے امن، سلامتی اور استحکام کے لیے بدستور ایک سنگین خطرہ ہے۔ دہشت گردی کے انسانی حقوق، اس سے متاثرین اور ان کے خاندانوں خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کی بنیادی آزادیوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ قرارداد میں زور دیا گیا کہ افغان سرزمین کو کسی بھی دہشت گرد گروہ کے اڈے یا محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
افغانستان میں سفارتی عملے، امدادی اور بین الاقوامی تنظیموں کے کارکنوں کی حفاظت اور سلامتی کی یقین دہانیوں، عام معافی، انتقامی کارروائیوں سے گریز اور ان تمام لوگوں کو محفوظ راستے کی اجازت دینے کا خیرمقدم کیا گیا جو افغانستان کے اندر یا باہر کا سفر کرنا چاہتے ہیں۔ افغانستان سے47 ممالک کے83ہزار سے زائد افراد کے انخلا میں پاکستان کے اہم کردار کو سراہا گیا۔ بین الاقوامی برادری بالخصوص او آئی سی کے رکن ممالک کے لیے افغانستان کے لوگوں کو تنہا نہ چھوڑنے کی اہمیت اجاگر کی گئی۔