جماعت اسلامی اور بنگلادیش
مشرقی پاکستان میں علاحدگی کی پرتشدد تحریک کے دوران اور بنگلادیش کے قیام کے بعد بھی سب سے زیادہ جماعت اسلامی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ جماعت کے مخالفین نے الزام لگایا کہ جب مشرقی پاکستان کے عوام اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے تھے تو جماعت اسلامی فوجی حکومت کی معاون بنی ہوئی تھی اور فوج کے ساتھ مل کر عوام کی جدوجہد کر کچلنے اور دبانے میں مصروف تھی اور البدر جیسی عسکری تنظیم بنا کر مخالفین کا صفایا کررہی تھی۔ بنگلادیش میں حسینہ واجد کی حکومت نے جماعت اسلامی کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ اسی کی مستحق تھی۔ جو لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اپنے وطن سے محبت اور اس کی سالمیت کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینا وہ اعلی ترین جذبہ ہے جس کی دنیا میں نظیر نہیں ملتی۔ جماعت اسلامی نے سابق مشرقی پاکستان میں جو کچھ کیا اس جذبے کے تحت کیا اس میں کوئی ذاتی غرض یا فوج سے وفاداری شامل نہ تھی۔ مشرقی پاکستان میں جب علاحدگی اور بغاوت کی پرتشدد تحریک چل رہی تھی تو عوام کی خاموش اکثریت اس کے خلاف تھی لیکن بھارت سے دہشت گردی کی تربیت لے کر آنے والے اسلحہ بردار عناصر نے اس خاموش اکثریت کو یرغمال بنا رکھا تھا البتہ جماعت اسلامی کے لیڈروں اور کارکنوں اور اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں نے یرغمال بننے سے انکار کردیا تھا۔ انہوں نے پوری جرات کے ساتھ وطن سے اپنی محبت کا اظہار کیا اور اسے برقرار رکھنے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کو تیار ہوگئے۔
بنگلادیش بن گیا تو جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ افراد کو سخت انتقامی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا بیدردی سے خون بہایا گیا، ان کا گھر بار کاروبار سب تباہ ہوگیا لیکن اس کے باوجود اپنی سرزمین سے ان کی محبت میں کمی نہ آئی۔ جن دنوں سقوط مشرقی پاکستان کا سانحہ پیش آیا ان ہی دنوں لاہور میں جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوری کا اجلاس ہورہا تھا۔ جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کے تمام اہم قائدین اجلاس میں شریک تھے۔ پاکستانی میڈیا بڑی حوصلہ افزا خبریں دے رہا تھا۔ بقول ہمارے ایک مہربان کے محبت کا زمزمہ بہہ رہا تھا۔ پاک فوج نے دہشت گردوں اور بھارتی ایجنٹوں کا صفایا کردیا تھا، پھر جب ریڈیو پاکستان نے اپنی معمول نشریات روک کر پاکستانی جرنیل کے ہتھیار ڈالنے کی خبر سنائی تو سب ہکا بکا رہ گئے۔ کلیجہ منہ کو آگیا، آنکھیں چھلکنے لگیں، لیکن سابق مشرقی پاکستانی قائدین نے اپنا حوصلہ برقرار رکھا اور جونہی انہیں واپسی کا راستہ ملا وہ اپنے نئے ملک بنگلادیش چلے گئے۔ بنگلا بندھو شیخ مجیب الرحمن نے اپنے مخالفین کے لیے عام معافی کا اعلان کردیا تھا اور یقین دلایا تھا کہ کسی کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا جائے گا۔ اس یقین دہانی کے باوجود پروفیسر غلام اعظم فوری طور پر واپس نہیں گئے۔ انہوں نے پاکستان میںمقیم رہنا بھی مناسب نہ سمجھا اور کویت چلے گئے۔ جہاں بیٹھ کر وہ حالات کا جائزہ لیتے رہے۔ جب انہوں نے دیکھاکہ حالات ان کے لیے سازگار ہیں تو واپس چلے گئے۔ ان پر مقدمہ چلا اور بالآخر ان کی بنگلادیش کی شہریت بحال کردی گئی۔ پروفیسر غلام اعظم کے بنگلادیش آنے کے بعد جماعت اسلامی نے تیزی سے اپنی سرگرمیاں شروع کیں، ان سرگرمیوںکا بنیادی مقصد بنگلادیش کے اسلامی تشخص کو بحال کرنا اور ملک میں نفاذِ اسلام کی راہ ہموارکرنا تھا۔ بنگلادیش اپنے قیام کے بعد مزید کئی انقلابات سے گزر چکا تھا۔ بنگلادیش کی فوج نے شیخ مجیب الرحمن کی بھارت نواز پالیسی سے مشتعل ہو کر انہیں پورے خاندان سمیت قتل کردیا تھا،ان کی ایک صاحبزادی شیخ حسینہ واجد محض اس لیے بچ گئیں کہ وہ اپنے شوہر کے ہمراہ ملک سے باہر تھیں۔ جنرل ضیا الرحمن کی قیادت میں فوجی حکومت قائم ہوئی تو وہ بھی زیادہ عرصہ نہ چل سکی اور جنرل ارشاد نے اپنے پیشرو حکمران کا خاتمہ کرکے اقتدار سنبھال لیا۔ ملک میں فوجی آمریت کے خلاف بحالی جمہوریت کی تحریک شروع ہوئی تو جماعت اسلامی اس میں پیش پیش تھی، جب کہ جنرل ضیا الرحمن کی بیوہ بیگم خالدہ ضیا بھی اپنی سیاسی جماعت بنگلادیش ڈیموکریٹک پارٹی قائم کرکے میدان سیاست میں اتر آئی تھیں۔ عوامی لیگ نے ان کے مقابلے کے لیے بیگم حسینہ واجد کو سیاست کے اکھاڑے میں اتارا تھا۔ جماعت اسلامی کا ان دونوں بیگمات سے قریبی رابطہ تھا۔ بحالی جمہوریت کے لیے سیاسی جماعتوں کے سربراہ اجلاس بالعموم پروفیسر غلام اعظم کے مکان پر ہوتے تھے جن میں دونوں بیگمات بھی شریک ہوتی تھیں۔ بالآخر بحالی جمہوریت کی یہ تحریک نئے انتخابات پر منتج ہوئی۔ جماعت اسلامی نے ان انتخابات میں بھرپور حصہ لیا اور قابل ذکر کامیابی حاصل کی۔ بیگم خالدہ ضیا کی پارٹی اکثریت میں آئی تو اس نے جماعت اسلامی کو حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ جماعت نے یہ دعوت قبول کرلی۔ اسے جو وزارتیں دی گئیں ان میں جماعت کے وزرا نے قابل رشک کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس طرح نہ صرف جماعت اسلامی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا بلکہ ملک میں اسلام اور اسلامی نظام کا بھی چرچا ہونے لگا اور پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا بھی آغاز ہوگیا۔ جس پر بنگلادیش بنانے والے بھارتی حکام کے کان کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ بنگلادیش کو دوسرا پاکستان نہیں بننے دیں گے۔ یہ ملک سیکولر ہے اور سیکولر ہی رہے گا۔ بظاہر وہ اس قسم کا اعلان کرنے کے مجاز نہ تھے۔ خالدہ ضیا کی حکومت نے اس پر احتجاج بھی کیا لیکن بھارت نے سنی ان سنی کردی پھر جب اگلے انتخابات میں عوامی لیگ برسراقتدار آئی اور بیگم حسینہ واجد وزیراعطم بنیں تو بھارت نے انہیں باور کرایا کہ ان کے اقتدار کو اصل خطرہ جماعت اسلامی سے ہے اگر جماعت اسلامی کا صفایا کردیا جائے تو وہ ان کے تاحیات اقتدار کی ضمانت دینے کو تیار ہیں۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی ایجنسی را کے ذمے داران نے حسینہ واجد سے ملاقات کرکے انہیں جماعت اسلامی کے معاملے پر خصوصی بریفنگ دی اور جماعت کو ختم کرنے کا پورا منصوبہ انہیں پیش کیا جس پر نہایت مستعدی سے عمل ہورہا ہے۔ نام نہاد جنگی ٹربیونل بھی را کی سفارش پر قائم کیا گیا ہے جس میں شرمناک انداز سے مقدمات چلاکر جماعت کے اکابرین کو پھانسی دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی بیگم خالدہ ضیا کو بھی گرفتار کرکے اور ان پر مقدمات کی بھرمار کرکے ان کی پارٹی کو بھی کارنر کردیا گیا ہے۔ اب بنگلادیش میں حسینہ واجد کے اقتدار کو چیلنج کرنے والی کوئی سیاسی قوت نہیں ہے اور بظاہر یہی نظر آرہا ہے کہ وہ تاحیات برسراقتدار رہیں گی لیکن قدرت کا اپنا ایک نظام ہے جس میں کوئی مداخلت نہیں کرسکتا۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ ان کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ بنگلادیش اگر مسلمانوں کا ملک ہے اور عوام اسلام پر جان چھڑکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہاں اسلام کو پزیرائی نہ ملے۔ اسلام کو پزیرائی ملے گی تو جماعت اسلامی کو نظر انداز کرنا بھی ممکن نہیں رہے گا۔ جماعت اسلامی بنگلادیش میں آزمائش کے تمام مرحلے طے کرچکی ہے اب اسے پاس یا فیل کرنا قدرت کے ہاتھ میں ہے۔ ہمیں دستِ غیب کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے۔