وزیر اعظم کے لیے ایک اچھی اور ایک بری خبر

ایک طویل عرصے کے بعد پاکستان میں او آئی سی کا اجلاس ہوا اس کا ون پوائنٹ ایجنڈا تھا کہ افغانستان معاشی بحران کی وجہ سے کسی خوفناک المیے کا شکار نہ ہو جائے پاکستان اور خود وزیر اعظم عمران خان کے لیے خوشی اور مسرت کا پہلو یہ ہے کہ 27ممالک کے وزرائے خارجہ اور تقریبا لگ بھگ 50ملکوں کے نمائندہ وفود نے اس اجلاس میں شرکت کی اس پورے منظر نامے میں دو چیزیں قابل ذکر ہیں کہ جو وزیر اعظم کے لیے اس میں مسرت اور اطمینان کا باعث بنیں پہلی تو یہی بات کہ او آئی سی جیسے اہم ادارے کا پاکستان میں اجلاس کا منعقد ہو جانا ورنہ تو اگر خدا نہ خواستہ کسی وجہ سے یہ اجلاس ملتوی ہوجاتا تو بھارتی میڈیا بالخصوص اور بین الاقوامی میڈیا بالعموم آسمان سر پر اٹھا لیتے کہ پاکستان میں امن و امان کی صورتحال اتنی خراب ہے کہ خود مسلم ممالک نے آنے سے انکار کردیا، اب بھی بڑے زور وشور سے یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان تنہا رہ گیا ہے لیکن او آئی سی کے اجلاس نے ثابت کردیا کہ پاکستان تنہا نہیں ہے بلکہ یہ ایک پر امن ملک ہے، یہاں بڑے چھوٹے اجلاس بلائے جا سکتے ہیں دوسرا اطمینان کا پہلو یہ رہا کہ جن مقاصد کے لیے یہ اجلاس بلایا گیا تھا وہ بہت حد تک پورے ہوگئے کہ افغانستان میں بھوک کا طوفان اور سردی کی جو لہر آنے والی ہے اس کے لیے ابھی سے معقول انتظام کرلیا جائے۔
سعودی عرب نے تو ایک ارب ریال دینے کا اعلان کیا ہے امید ہے اور عرب ممالک بھی آگے بڑھیں گے جیسے کے قطر اور یو اے ای سے بھی امید ہے کہ اسی طرح کا اعلان کر سکتے ہیں پاکستان سے تو مسلسل غذائی اجناس اور دگر ضروریات زندگی کی اشیا جا ہی رہی ہیں پاکستان کے راستے سے بھارت کی طرف سے بھی امداد جارہی ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم کے اس اجلاس میں طالبان مخالف ممالک امریکا، جاپان، جرمنی اور اٹلی کے نمائندوں نے بھی شرکت کی اجلاس سے وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا اگر ہم نے اس موقع پر افغانستان کی مدد نہیں کی تو اس خطے میں بڑی تباہی آئے گی۔ اجلاس کا جو اعلامیہ جاری ہوا ہے اس میں افغانستان کو تباہی و بدحالی سے بچانے کے لیے کئی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں ان میں سب سے اہم خوراک اور نقد امداد کی فراہمی کے لیے فوڈ سیکورٹی پروگرام اور ہیومین ٹیرین ٹرسٹ فنڈ قائم کرنے پر اتفاق ہوا ہے ایک خصوصی نمائدہ بھی مقرر کردیا گیا ہے جو اجلاس کے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے میں نگرانی کرے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں اس اجلاس کے انعقاد میں وزیر اعظم عمران خان کی دن رات کی محنت بھی شامل ہے بہت شارٹ نوٹس پر یعنی پندرہ دن پہلے پاکستان نے تمام مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ سے رابطہ کیا اور یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ اکثر ممالک نے اپنے وزیر خارجہ کو بھیجا جہاں سے متعلقہ وزیر کسی وجہ سے نہ آسکے تو اس ملک کا نمائدہ وفد اجلاس میں شرکت کے لیے آیا۔ کچھ لوگوں نے یہ تنقید کی ہے کہ افغانستان کو تسلیم کرنے کے حوالے سے اجلاس میں کوئی بات نہیں ہوئی اسی طرح امریکا نے جو اربوں ڈالر افغانستان کے روک رکھے ہیں اس پر بھی اجلاس میں کوئی بات نہیں ہوئی یہ بھی تنقید ہوئی کہ اتنے اہم پلیٹ فارم سے کشمیر کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا اس کا قانونی اور اخلاقی جواب تو یہی ہے جو دیا گیا ہے کہ یہ اجلاس ون پوائنٹ ایجنڈے پر بلایا گیا تھا لہذا اسی مسئلے کو فوکس کیا گیا۔
یہ تو اچھی خبریں تھیں عمران خان کے لیے بری خبر یہ ہے کہ جو انہیں مل چکی ہے کہ کے پی کے میں تحریک انصاف شکست کھا گئی امید یہ کی جارہی تھی کہ کے پی کے میں تحریک انصاف کلین سوئپ کرے گی جیسا کہ 2018 کے عام انتخابات میں ہوا تھا اب اس کے اوپر تجزیے اور تبصرے تو شائع ہوتے رہیں گے 64تحصیلوں میں سے 60کے نتائج آئے اس میں جے یو آئی کے 21پی ٹی آئی کے15آزاد امیدوار 10کامیاب ہوئے، ن لیگ نے تین جماعت اسلامی نے دو اور پی پی پی نے ایک نشست حاصل کی، اگر یہ انتخاب پی ڈی ایم کے اتحاد سے لڑا جاتا تو تحریک انصاف اس سے بھی بری طرح ہار جاتی یا اگر صرف جے یو آئی اور ن لیگ کا اتحاد ہو جاتا تو بھی نتائج پی ٹی آئی کے لیے زیادہ اچھے نہ ہوتے۔
کے پی کے کے انتخابات نے ایک چیز اور واضح کردیا کہ پی پی پی اور ن لیگ صوبائی جماعتیں بن کر رہ گئیں ہیں ن لیگ پنجاب کی سیاسی جماعت ہے تو پی پی پی صوبہ سندھ کی جماعت ہے۔ آصف زرداری صاحب سر توڑ کوششیں تو کررہے ہیں جس میں انہیں ایک ہلکی سی کامیابی پنجاب ایک الیکشن میں ملی جس نشست سے عام انتخاب میں پانچ ہزار ووٹ حاصل کیے تھے اب ضمنی انتخاب میں بتیس ہزار ووٹ حاصل کر لیے لیکن آصف زردای کی جدوجہد کو ان کے سندھ کے وزیر اعلی متعصبانہ بیانات دے کر سبوتاژ کررہے ہیں۔ سندھ میں پی پی پی کی حکومت لسانی بنیادوں پر جو فیصلے کررہی ہے اس سے پی پی پی کبھی بھی قومی جماعت نہیں بن سکتی۔
کے پی کے میں تحریک انصاف نے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے پی ٹی آئی کے مختلف رہنما مختلف توجیحات پیش کررہے ہیں سب سے اچھی اور حقائق پر مبنی بات شبلی سرفراز صاحب نے کہی کہ ہماری بہت ساری نشستوں پر پی ٹی آئی۔۔ ٹو۔۔ پی ٹی آئی مقابلہ ہوا اس طرح ہم کئی اہم نشستیں ہار گئے تحریک انصاف کے بیش تر رہنمائوں نے ایک وجہ مہنگائی کہا اس کی وجہ سے بھی لوگ ناراض ہوئے عمران خان سمیت تحریک کے کئی رہنمائوں کا خیال ہے کہ ہم سے ٹکٹوں کی تقسیم میں غلطی ہوئی جس کا خمیازہ بھگتنا پڑرہا ہے۔ تحریک انصاف کے لیڈروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ آزاد جیتنے والے بھی اصلا ہمارے ہی لوگ ہیں وہ ہمارے ساتھ ہی آئیں گے ان شا اللہ پھر اکثریت ہماری ہو جائے گی۔
ایک سوال یہ بھی کئی حلقوں میں زیر بحث ہے کہ جے یو آئی کو اتنی عظیم الشان کامیابی کیسے ملی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمن شروع سے موجودہ حکومت کے خلاف حقیقی اور سخت اپوزیشن کا کردار ادا کررہ تھے جبکہ دیگر جماعتوں یعنی ن لیگ اور پی پی پی کے بارے فرینڈلی اپوزیشن کا تاثر ابھر رہا تھا اور کچھ یہ بات بھی عوام کے ذہنوں میں تھی یہ اسٹیبلشمنٹ سے تانا بانا رکھنے والی جماعتیں ہیں۔ بہر حال ابھی اگلے مرحلے کے انتخابات ہونا باقی ہے اس میں صورتحال اور واضح ہو جائے گی۔ لیکن تحریک انصاف کے لیے اگلا انتہائی سخت مرحلہ تو پنجاب کے بلدیاتی الیکشن کا ہے۔
کے پی کے کا نتیجہ پہلے آجانے کی وجہ سے تحریک انصاف کو اپنی کوتاہیوں خامیوں کا پتا چل گیا اور زمینی حقائق بھی سامنے آگئے اس کے بعد اگر تحریک انصاف پوری اور بھر پور تیاریوں کے ساتھ پنجاب میں میدان میں آئے گی تو یہ پنجاب میں ن لیگ کو اپ سیٹ کر سکتی ہے۔