’کے پی حکومت کے اربوں روپے کہاں جا رہے ہیں؟ اسپتالوں میں اوپر سے نیچے تک سفارشی بھرتی کیے گئے‘

چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کا کہنا ہے کہ صحت کارڈ کے لیے 5، 6 ارب روپے مختص کر دیے ہوں گے تاکہ لوگ اس میں سے پیسا کھاتے رہیں۔

بریسٹ کینسر کے بڑھتے کیسز سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔

ایڈوکیٹ جنرل کے پی نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے شہریوں کی سہولت کے لیے صحت کارڈ کے اجرا کا کام شروع کیا ہے، رجسٹرڈ ہونے والے ہر شہری کو 10 لاکھ روپے تک علاج کی سہولت دی گئی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے پانچ چھ ارب مختص کر دیے ہوں گے تاکہ لوگ اس میں سے پیسا کھاتے رہیں، خیبرپختونخوا کے گورنمنٹ سیکٹر میں تو کوئی کام ہو ہی نہیں رہا۔

جسٹس گلزار  احمد نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے سرکاری اسپتالوں میں نہ کوئی ایکسرے مشین کام کرتی ہے نہ ہی آکسیجن کا نظام ہے، کے پی حکومت کے اربوں روپے جا کہاں رہے ہیں؟ کے پی کے اسپتالوں میں اوپر سے لے کر نیچے تک لوگ سفارش پربھرتی کیے گئے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ صحت کارڈز کا کوئی طریقہ کار تو ہو، کس کس کو صحت کارڈ دیں گے؟

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ بلوچستان کا ہیلتھ بجٹ کہاں جاتا ہے؟ بلوچستان میں آج تک کوئی اوپن ہارٹ سرجری نہیں ہوئی۔

سپریم کورٹ نے بریسٹ کینسر سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔