حکومتی اکثریت برقرار کیوں؟
منی بجٹ پر اپوزیشن نے مختلف دلیلیں دے کر ایساماحول بنادیاتھا کہ حکومت منی بجٹ منظور کرانے میں ناکام ہو جائے گی حکومت اپنی عددی اکثریت کھو چکی ہے ان کو ایوان میں اپنے اتحادیوں اور اپنے ممبران کی بھی حمایت حاصل نہیں رہی بہت سارے لوگ ان سے ناراض ہیں اور پھر اراکین اسمبلی نے عوام میں بھی جانا ہے وہ اس بل کی حمایت کرکے عوام کا سامنا نہیں کر سکیں گے لہذا وہ کسی صورت میں بھی منی بجٹ میں حکومت کو ووٹ نہیں دیں گے ہمیں ان کے خلاف عدم اعتماد لانے کی ضرورت نہیں یہ خود ہی اعتماد کھونے والے ہیں اور منی بجٹ میں سب واضح ہو جائے گا حکومت بے نقاب ہو جائے گی حالات بھی کچھ ایسے بن رہے تھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ تحریک انصاف کے اندر سے بھی کچھ لوگ ناراض ہیں اتحادی بھی ناز نخرے دکھا رہے تھے لیکن نہ جانے حکومت نے کس طرح مینج کیا سارا کچھ بدل گیا اتحادیوں کے گلے شکوے بھی دور ہو گئے اور اپنے بھی ناراضیوں کے باوجود ووٹ دینے کے لئے پہنچ گئے ہم تو پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ یہ حکومت اس وقت تک منی بجٹ ایوان میں پیش نہیں کرے گی جب تک اسے یقین نہ ہو جائے۔ حکومت نے منی بجٹ پاس کروانے کا مکمل بندوبست کر کے ہی اسے ایوان میں پیش کیا تھا حکومت نے منی بجٹ پاس کروا کر نہ صرف اپنی عددی اکثریت ثابت کر دی ہے بلکہ اپوزیشن کی امیدوں پر بھی پانی پھیر دیا ہے معمولی اکثریت سے وجود میں آنے والی حکومت کو متحدہ اپوزیشن تمام تر حربوں کے باوجود ہلانے میں ناکام ہو چکی ہے وہ ہر دفعہ اپنے ورکروں کو امید بندھاتے ہیں کہ بس حکومت ابھی گئی ابھی گئی لیکن اپوزیشن کی مسلسل ناکامیوں کے بعد لوگوں کے یقین متزلزل ہو چکے ہیں وہ شیر آیا شیر آیا والی کہانی سمجھ کر اب اپوزیشن کی باتوں پر کان نہیں دھرتے ہمارے کچھ صحافی جو اپوزیشن سے زیادہ حکومت کے جانے کے خواہاں ہیں وہ ایک نئی منطق پیش کر رہے ہیں کہ اپوزیشن نے خود منی بجٹ منظور کروایا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں جو مہنگائی کا طوفان آئے گا حکومت اس کے ردعمل کا سامنا نہیں کر پائے گی اور خود ہی چلی جائے گی دوسرے لفظوں میں دیکھا جائے تو اس کا واضح مطلب ہے کہ ہم سے کچھ نہیں بن پا رہا۔ ہمارے معاشرے کی ایک نفسیات یہ بھی ہے کہ مسلسل ناکامیوں کے بعد لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان کے بس کی بات نہیں یہ ہوا میں باتیں کر رہے ہیں ان کی شنوائی نہیں ہو رہی یعنی کہ ان کی دال نہیں گل رہی یہ تاثر نہ صرف اپوزیشن کے موثر ہونے میں رکاوٹ ہے بلکہ آئندہ کے لیے بھی ان کا تاثر کچھ اچھا نہیں بن رہا دراصل اپوزیشن کی ساری جماعتیں اپنے اپنے داو پر لگی ہوئی ہیں ہر جماعت انفرادی طور پر اپنی ایڈجسٹمنٹ چاہ رہی ہے اور اس کے لیے سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہے یہی وجہ ہے کہ نہ تو اپوزیشن کوئی موثر احتجاج کر پا رہی ہے نہ کوئی تحریک چلا پا رہی ہے اور نہ ہی حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے کی جرات کر پا رہی ہے ہر جماعت اگلے انتخابات پر نظریں لگائے بیٹھی ہے اور چاہتی ہے کہ اگلے سیٹ اپ میں کہیں کوئی کردار مل جائے اپوزیشن کی جماعتیں اپنے ورکروں کو حوصلہ دینے کے لیے دھونی دخائے بیٹھی ہیں لیکن مچ مچانے کی پوزیشن میں کوئی نہیں عجیب اتفاق ہے کہ نہ حکومت کھل کر کھیل رہی اور نہ ہی اپوزیشن کوئی فیصلہ کن کردار ادا کر پا رہی ہے ایسے لگتا ہے جیسے سارے دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر گامزن ہیں ہر کوئی سجی دکھا کر کھبی مارنے کے چکروں میں ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہر کوئی اگلے انتخابات کی تیاریوں میں ہے اور اس کے لیے اپنی راہ ہموار کر رہا ہے کوئی براہ راست موٹر وے سے اسلام آباد جانا چاہتا ہے تو کوئی جی ٹی روڈ پر اکتفا کیے ہوئے ہے کوئی پیرا شوٹ سے لینڈ کرنے کی کوشش میں ہے تو کوئی بائی ائیر لینڈنگ کے چکروں میں ہے پکڈنڈیوں کا انتخاب کسی کی چوائس نہیں اگر ایسا ہی کرنا ہے تو سارے مل بیٹھ کر بانٹ لو یا ایسے بھی ہو سکتا ہے کہ سارے مل بیٹھ کر ایک خاص وقت تک ایسا سیٹ اپ بنا لیں جس میں سب کی نمائندگی ہو اور بنیادی چیزیں درست کرنے کا ٹارگٹ طے کر لیں اس کے بعد سب اپنا اپنا زور لگا لیں جس کو عوام بہتر سمجھیں اس کا انتخاب کر لیں لیکن موجودہ حالات میں ہم سیاسی سماجی اور معاشی عدم استحکام کی طرف بڑھ رہے ہیں اور بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں اس کا احساس بھی نہیں آخر یہ ہماری جھوٹی انائیں ہمیں کہاں لے جائیں گی ہم اپنے مفادات کے لیے کس کس ملکی مفاد کو قربان کرتے جائیں گے
نہ جانے ہماری لیڈر شپ میں کب قومی مفاد کی لو جاگے گی کب ہم اپنی ذات سے نکل کر دوسروں کے لیے سوچیں گے۔