سقوط کشمیر۔۔ مظلوم مسلمانوں کے لیے دعاوں کی درخواست ہے
حکومت نے جموں و کشمیر کو پاکستان کی قومی سلامی پالیسی کا اہم نکتہ قرار دیا ہے۔ اس کا یہ مطلب لیا جائے کی مسئلہ کشمیر پاکستان کی سلامتی سے منسلک ہے۔ اور جموں و کشمیر پر حملہ پاکستان کی سلامتی پر حملہ تصور کیا جائے گا تو پھر یہ ماننا پڑھے گا کہ اس وقت پاکستان کی سلامتی پر بھارت کا قبضہ مکمل ہو چکا۔ اندریں حالات اب تصور کرنا مشکل ہے کہ بھارت سے یہ قبضہ چھوڑایا جا سکے گا کہ نہیں۔ بھارت جموں و کشمیر پر قبضہ کو کافی حد تک مستحکم اور بین الاقوامی متنازعہ حثیت ختم کرنے میں بھی کامیاب ہو چکا۔ دوسری جانب سفارتی محاذ پر بھارت کو وہ جواب نہیں دیا جا رہا جس کی آج اشحد ضرورت ہے۔ کشمیریوں کی بدقسمتی کہیں یا نالائقی کہ وہ اپنی آزادی کے لیے ہر قسم کی قربانی تو دے سکتے ہیں لیکن بھارتی زیادتیوں پر دنیا کے کسی ملک کے ساتھ بات نہیں کر سکتے۔ جب کہ کشمیریوں کا وکیل بدتر معاشی بحران ہی سے نہیں گزر رہا بلکہ تاریخ کے بدترین سیاسی عدم استحکام اور اندرونی خلفشار کے باعث سفارتی محاذ پر بھارت کو اس انداز میں جواب نہیں دے سک رہا۔اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر بھارت نے دنیا اور خاص طور پر مسلم ممالک میں لابنگ کی اور عیاشیوں میں مست عربوں کو ہم نوا بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے جاری آزادی کی پر امن سیاسی تحریک کو تشدد سے ختم گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں، نوجوانوں کا قتل عام، ریپ، سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں کی گرفتاریوں پر کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ آج سری نگر میں نہ کوئی ہڑتال ہوتی ہے نہ کوئی احتجاج حتی کہ برہان وہانی کی شہادت سے سری نگر کے نوجوانوں اور طلبائ کے خون میں جو حرارت پیدا ہوئی تھی وہ بھی سرد پڑھ چکی۔ سیاست دان اور کارکن جیلوں میں ہیں۔بچے کچوں کو آتنگ بازوں کا رابطہ کار کہہ کر سڑکوں پر قتل کیا جا رہا ہے۔ بھارتی فوج چن چن کر ان نوجوانوں کو قتل کر رہی جو کبھی کسی جلسے جلوس میں گئے ہوں یا کسی آزادی پسند رہنمائ کا دور پار کا رشتہ دار بھی ہو۔۔ جنوری 2022 کے ابتدائی 15 یوم میں 22 افراد کو ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا۔ اب حکومت بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی انتظامیہ کے ساتھ بین الاقوامی تجارتی معاہدوں پر دستخط کروانا شروع کر دئے ہیں جو مسئلہ کشمیر کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی ہے۔ جو بھی ملک جموں و کشمیر حکومت سے معائدہ کرے گا وہ اس کی قانونی حیثیت کو تسیلم کرے گا۔اس کا آغاز بھی مسلم ملک سے ہوا۔ دبئی اور جموں و کشمیر کی حکومت کے درمیان چند روز پہلے ایک معائدے پر دستخط ہوئے جس کے مطابق دبئی کا سب سے بڑا رئیل اسٹیٹ ڈویلپر، عمار گروپ، سری نگر میں 500,000 مربع فٹ کا "عمار مال آف سری نگر” تعمیر کرے گا۔ یہ سری نگر میں پہلی غیر ملکی سرمایہ کاری ہو گی۔ حکومت بھارت نے 5 اگست 2019ئ کو جموں و کشمیر کو سرکاری طور پر بھارت کا حصہ قرار دے کر بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو دعوت دی تھی۔ عمار گروپ نے اس میں پہل کر دی ہے۔ اس موقع پر عمار کے بانی محمد الابار نے کہا: "ہم جموں و کشمیر کے رہائشیوں اور سیاحوں کے لیے عالمی معیار کے مال کا تجربہ لانا چاہتے ہیں جس میں تیزی سے اضافہ ہونے کا امکان ہے”۔ بھارتی میڈیا کے مطابق عمار کے سربراہ نے کہا کہ "عمار جموں اور سری نگر میں رئیل اسٹیٹ، سیاحوں کی مہمان نوازی اور دیگر تجارتی اور رہائشی منصوبوں میں مذید سرمایہ کاری پر غور کر رہا ہے۔ یو اے ای اور ہندوستان جامع اسٹریٹجک پارٹنر ہیں اور عمار کا یہ پروجیکٹ جموں و کشمیر میں اس پارٹنر شپ کا سنگ میل ثابت ہوگا۔ متحدہ عرب امارات اور بھارت کی اقتصادی شراکت داری ایک موڑ پر ہے اور ہم متحدہ عرب امارات کے دیگر سرمایہ کاروں کو بھی اس موقع کو دیکھنے کے لیے مدعو کریں گے،” بھارت میں متحدہ عرب امارات کے سنئیر ترین سفارت کار کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ” دونوں ممالک مشترکہ جغرافیائی سیاسی اور اقتصادی مفادات کی بنیاد پر مضبوط دو طرفہ تعلقات کا اشتراک کرتے ہیں۔ اسی سلسلے میں، دبئی کی حکومت نے حال ہی میں جموں و کشمیر میں بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری کو بڑھانے کے لیے ہندوستان کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت دبئی کشمیر میں ایک بلین ڈالر سے زیادہ مالیت کے پراجیکٹس فراہم کرے گا، جن میں انڈسٹریل پارکس، ایک میڈیکل کالج، ایک خصوصی ہسپتال، لاجسٹک سینٹرز، آئی ٹی سمیت کثیر مقصدی ٹاورز شامل ہیں”۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق دبئی میں بھارتی سفارت کار کا کہنا تھا کہ "انہیں خوشی ہے کہ عمار جموں و کشمیر میں ایک شاپنگ مال میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو مزید فروغ مل رہا ہے اور دیگر شعبوں میں بھی سرمایہ کاری متوقع ہے۔ عمار گروپ کے علاوہ متحدہ عرب امارات کے دیگر اعلیٰ کارپوریٹ بھی جموں و کشمیر میں سرمایہ کاری کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ ایک ای کامرس کمپنی جلد ہی یہاں دفاتر کھولے گی”۔ عمار متحدہ عرب امارات کی دوسری کمپنی ہے جو جموں و کشمیر میں سرمایہ کاری کا وعدہ کر رہی ہے۔ دسمبر 2020 میں، ابوظہبی میں قائم خوردہ کمپنی لو لو گروپ نے جموں اور کشمیر میں فوڈ پروسیسنگ اور لاجسٹکس سینٹر قائم کرنے کے لیے ابتدائی طور پر تقریباً 600 ملین کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا۔ مزید سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے بھارت جموں میں دو ہفتوں پر مشتمل "ایکسپو 2020 ” منعقد کر چکا۔جس کا نام انڈیا پویلین B2B ایونٹس رکھا کیا گیا تھا۔پویلین میں دیگر ممالک کی معروف کمپنیوں کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی جس کے نتائج اب نکلنا شروع ہو گئے ہیں۔ اس سے بھارت دو مقاصد حاصل کرے گا ایک دنیا سے کشمیر کو اپنا حصہ تسلیم کرانا اور دوسرا دنیا کو یہ بتانا کہ کشمیر میں امن و امان مثالی ہونے کے باعث بین الاقوامی کمپنیاں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ بھارت جموں کو دنیا کے سامنے پر امن کشمیر کے طور پر پیش کرنے چاہتا ہے جب کہ بانیال کے اس پار قتل عام کا بازار گرم ہے۔ ان مظلوموں کو راحت و سکون دینے کی کوئی بات ہی نہیں کر رہا اور نہ بھارتی جہاریت کی دنیا تک خبر پہنچ رہی ہے۔ کشمیریوں کے سفیر نے کہا تھا کہ میں ساری دنیا میں سفارتی کاری کروں گا۔ ابھی تک نہ وزارت خارجہ میں کوئی کشمیر ڈسک قائم ہوا نہ کسی سفارت خانے میں کشمیر اتاشی کا تقرر اور نہ ہی حکومت آزاد کشمیر کو یہ اختیار ہے کہ یو اے ای کی حکومت سے بات کرے کہ متنازعہ علاقے میں سرمایہ کاری سے مقدمہ کشمیر کمزور ہو گا۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ سقوط کشمیر کا وقت قریب ہے، جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے لیے دعاوں کی درخواست ہے۔