الزام ٹھوس ثبوت نہیں ہوتا!
وزیر اعظم عمران خان عدلیہ کو بھی پارلیمنٹ بنانا چاہتے ہیں ان کے نئے بیانئے نے عدلیہ کی کارکردگی کو شکوک و شبہات کے اندھے کوئیں میں دھکیل دیا ہے، فرماتے ہیں ٹھوس ثبوت کے باوجود لوگ آزاد فضائوں میں دندناتے پھر رہے ہیں، جو ملک کی بہت بڑی بد نصیبی ہے، سول یہ ہے کہ کسی پر چور ڈاکو اور لٹیرے کا الزام لگانا ٹھوس ثبوت کیسے ہو سکتا ہے الزام ثابت ہونے تک ملزم ملزم ہی رہتا ہے مہذب اور ترقیافتہ ملکوں میں ملزمان کو بھی باعزت شہری کا درجہ دیا جاتا ہے عدالتیں ٹھوس ثبوتوں اور معتبر شہادتوں پر ہی فیصلہ کرتی ہیں، المیہ یہ ہے کہ خان صاحب الزام کو ٹھوس ثبوت سمجھتے ہیں، سمجھ کے اس پھیر نے ملک اور قوم کو بدحالی کی دلدل اور افلاس کی گہرائیوں میں دفن کر دیا ہے، یہ کیسی بد بختی ہے کہ خان صاحب سمجھتے ہیں کہ ان کے دہنِ مبارک سے نکلنے والا ہر لفظ صداقت کا امین ہوتا ہے مگر قوم جانتی ہے کہ کبھی کبھی عدلیہ بھی بھول چوک کی مرتکب ہو جاتی ہے، یوں بھی کسی کو امین اور صادق کا سرٹیفکیٹ جاری کرنا عدلیہ کا کام نہیں اس کا فیصلہ انسان کا اپنا کردار کرتا ہے۔
لاہور بینکنگ جرائم کورٹ نے میاں شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمہ میں عبوری ضمانت میں توسیع کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے، جس کے مطابق ایف آئی اے نے ابھی تک تفتیش مکمل نہیں کی اور بینکرز کا کردار بھی غیر واضح ہے جرائم کورٹ نے تسلیم کیا ہے کہ بینکرز کے حوالے سے بھی تفتیش تاحال نامکمل ہے جرائم کورٹ کا کہنا ہے جبکہ تک بینکرز کا کردار واضح نہیں ہو جاتا اس وقت تک عدالت کے دائرہ اختیار پر بحث ممکن نہیں، عدالت نے میاں شہباز شریف اور حمزہ شریف کی عبوری ضمانت میں توسیع کا حکم جاری کر دیا ہے، لیکن وزیر اعظم عمران خان اس حکم سے دلبرداشتہ ہو گئے ہیں، کیونکہ عدالت نے موصوف کی خواہش کے مطابق فیصلہ نہیں دیا، وہ اپنے الزامات کو ٹھوس ثبوت قرار دے کر شریف خاندان کو سزائیں سنائے جانے کے لیے ہمہ تن گوش تھے۔
وزیر اعظم عمران خان کو سیاست کے میدان میں اچھلتے کودتے لگ بھگ چوتھائی صدی گزر گئی ہے، اقتدار میں آئے ہوئے بھی چار سال گزرنے والے ہیں، ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑے تسلسل سے پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کسی کو نہیں چھوڑوں گا سب کو جیل میں ڈال دوںگا، قانون پر پوری طرح عملدرآمد کرائوں گا، پاکستان کا ہر شہری مساوی حقوق کا حامل ہے، ہر کرپٹ بندے کا احتساب ہو گا، کسی کو این آراو نہیں دوںگا۔۔۔ اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ موصوف نے اپنے بیانیے پر بڑی ثابت قدمی سے عمل کیا، اپنے عزائم کو بھر پور انداز میں عملی جامعہ پہنایا اپنے کسی مخالف کو نہیں چھوڑا، سب کو جیل کی حبس زدہ کوٹھڑی میں بند کر دیا، اور اب ان کی حکومت رخت سفر باندھنے کی تیاری کررہی ہے موصوف نے چلتے چلتے یہ اعتراف کرنا بھی ضروری سمجھا کہ احتساب کرنے میں ناکام رہے ہیں مگر قوم جانتی ہے کہ وہ حکومت کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں، تاہم انہوں نے یہ باور کرانا ضروری سمجھا کہ فوجی قیادت سے تعلقات بے مثال ہیں، اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک لانا چاہتی ہے تو اپنا شوق پورا کر لے۔
یہ بیانیہ اتنا واضح ہے کہ قوم خان صاحب کے اعتماد اور ملک و قوم کے مسائل سے لاتعلقی کی وجہ جان چکی ہے، مگر یہ جاننے سے قاصر ہے کہ مقتدر قوتوں نے خان صاحب کو ڈھیل کیوں دی ہوئی ہے، کیا خان صاحب کی کارکردگی کسی ڈیل کا نتیجہ ہے، قوم یہ بھی جاننا چاہتی ہے کہ وہ ڈیل کیا ہے اور اس کی ضرورت کیوں پیش آئی، مگر مشکل یہ ہے کہ قوم کے پاس وہ ذرائع نہیں جو اصل معاملات تک رسائی دے سکیں، یہ بات بھی حیران کن ہے کہ خان صاحب نے اپنے ارد گرد بیٹھے ہوئے، مہنگائی مافیہ کو یاددہانی کرانا ضروری سمجھا کہ آنے والے تین ماہ انتہائی اہم ہیں، گویا وزیر اعظم نے مہنگائی مافیا کو باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اگر ہاتھ ہولا نا رکھا گیا تو آہنی ہاتھ کی گرفت میں آجائیں گے، شاید بین السطور موصوف نے یہ بھی فرمایا ہے کہ تین ماہ کے بعد حشر برپا ہونے کا امکان ہے، ہر سمت نفسا نفسی کا عالم ہو گا، ہر کوئی اپنے بچائو کی تگ و دو کرے گا کوئی کسی کی معاونت نہیں کرسکے گا، کسی کا دست شفقت کام نہیں آئے گا۔
خان صاحب نے بالآخر یہ اقرار کر ہی لیا کہ خیبر پختون خوا میں بلدیاتی انتخابات کی بڑی وجہ مہنگائی ہے اس خانہ خراب مہنگائی نے تحریک انصاف کو عوامی سونامی میں غرق کر دیا ہے، پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے، اس رسوا کن شکست نے تنظیمی سطح پر پارٹی کو نڈھال کر دیا ہے، گویا خان صاحب نے تسلیم کر لیا ہے کہ مہنگائی نے عوام کو بد حال کیا تھا جس کے نتیجے میں پارٹی کو بے حال ہونا پڑا اگر تین ماہ میں مہنگائی پر کنٹرول نہ کیا گیا تو پارٹی اپنا کنٹرول کھو بیٹھے گی، اس کا مطلب یہ ہے کہ خان صاحب نے میاں نواز شریف کے معاملے میں جس ڈیل کا ذکر کیا تھا اس میں کچھ نہ کچھ نہیں بہت سی سچائی ہے، اور اسی سچائی نے وزیر اعظم عمران خان کو نڈھال کر دیا ہے۔ آرمی چیف نے درست کہا ہے کہ ڈیل کی باتیں کرنے والوں سے پوچھا جائے کہ ان کی معلومات کے ذرائع کیا ہیں۔