بلدیاتی انتخابات۔ اپوزیشن کی پوائنٹ سکورنگ، وزیراعظم شاہی مہمان
وزیراعظم آزادجموں و کشمیر سردار عبدالقیوم خان نیازی ان دنوں عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب میں ہیں جہاں وہ عمرہ کم سیاسی جلسوں سے زیادہ خطاب کر رہے ہیں۔ وہ نجی دورے پر گئے تھے لیکن پہنچنے کے دوسرے روز ہی ان کو شاہی مہمان قرار دیا گیا۔ عربوں کا بھی کشمیر پر نقطہ نظر کمال کا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں1600 ملین یو ایس ڈالر کی سرمایہ کاری کر کے متنازعہ علاقے کو بھارت کا حصہ تسلیم کر رہے ہیں اور آزاد کشمیر کے وزیراعظم کو شاہی مہمان قرار دے کر ریاستی سربراہ کا پروٹوکول دے رہے ہیں۔ لگتا ہے عرب اب جہاں میں ” صورت خورشید” جینا چاتے ہیں ” اِدھر ڈوبے، اْدھر نکلے، اْدھر ڈوبے، اِدھر نکلے”۔ ہم عربوں کا یہ فیصلہ اپنے لیے بھی اعزاز سمجھتے ہیں کہ ہمارے وزیر اعظم کو شاہی مہمان قرار دیا گیا وہ مکہ ، مدینہ ، جدہ ریاض کی گلیوں میں یوں گھوم رہے ہیں جیسے "گلیاں ہو جان سنجیاں، وچ مرزا یار پھرے” عرض مقدس میں ہوٹر والی گاڑیوں میں گھومتے انہیں واقعی ریاستی سربراہ ہونے کا احساس ہوتا ہو گا۔۔۔ وہ ایک ریاست کے سربراہ ہی ہیں جس کا اپنا جھنڈا ہے صدر، سپریم کورٹ اور وہ خود وزیراعظم ہیں۔ لیکن وزیر خارجہ کے بغیر دنیا ان کو ریاست کے سربراہ کا پروٹوکول نہیں دیتی۔کسی جگہ یہ مہربانی ہو جاتی ہے تو ہمیں خوشی کے دورے پڑھ جاتے ہیں۔ جیسے آج کل پی ٹی آئی کے کارکنوں کو پڑھے ہوئے ہیں ، ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے ہیں اور اس کا تمام کریڈٹ بھی عمران خان کو دیتے ہیں جس کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کا پاسپورٹ تو خراب فہرست میں چوتھے نمبر پر آ گیا ہے لیکن آزاد کشمیر کے وزیراعظم کو شاہی مہمان قرار دیا گیا ہے۔ ہم تو اپنے وزیراعظم کی اس عزت و توقیر سے بہت خوش اور دعا گو ہیں کہ ان کو یہ ریاستی سربراہ کا پروٹوکول کوہالہ پل عبور کرنے کے بعد سے ہی ملنا شروع ہو جائے۔ یہ احسان نہیں حق ہے اور حق خود ارادیت تک یہ حق ہمارے حکمرانوں کو استعمال کرنا چاہیے۔ لیکن ہمارے سیاست دان خواہ پار کے ہوں یا اورار کے خود ہی ہمت نہیں کرتے۔ جب سے سعودی عرب میں شاہی پروٹوکول ملا نیازی صاحب نے سیاسی سرگرمیاں تیز کر لی ہیں۔ہر روز نئے اجتماع سے خطاب کی خبر اور تصویریں جاری ہوتی ہے۔۔ تازہ خبر میں مدینہ منورہ میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اپوزیشن کو ہدف تنقید بنایا اور کہا کہ بلدیاتی انتخابات ہمارے لیے ایک چیلنج ہیں جو ہر صورت ہوں گے۔تحریک انصاف بلدیاتی انتخابات کی بھرپور تیاری کر رہی ہے اپوزیشن بھی اس کی تیاری کرے۔ ریاست میں ایک اچھا کام ہونے جا رہا ہے تو اپوزیشن اس میں پوائنٹ سکورنگ کیوں کر رہی ہے۔ وزیراعظم آزاد کشمیر نے ارض مقدس میں اعلان کیا ہے کہ ریاست کو عام ا?دمی کیلئے فلاحی ریاست تمام وسائل لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں گے۔اپوزیشن بلدیاتی انتخابات کے سلسلے ہمارا ساتھ دے، مثبت تجاویز کا خیرمقدم کریں گے ، جلد اس سلسلے میں کل جماعتی کانفرنس بھی بلائیں گے۔ عام انتخابات میں دو جماعتی گٹھ جوڑ کو عوام نے جڑ سے اکھاڑ پھینکا”۔ میرا نہیں خیال کہ آزاد کشمیر میں اپوزیشن بلدیاتی انتخابات پر پوائنٹ سکورنگ کرے گی البتہ خود حکومت اپنے وعدے اور اعلان سے دست بردار ہونے کے لیے اپوزیشن کا کندہ استعمال کرنے چاتی ہے تو یہ اور بات ہے۔۔ اپوزیشن ہے ہی کیا دو جماعتیں، وہ بھی بقول وزیراعظم ان کی کٹھ جوڑ کو عوام نے جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے۔ واقعی ایسا ہی ہے تو پھر ہمارے وزیراعظم کو خوف زدہ نہیں ہونا چاہئے۔ اگر خوف زدہ نہیں ہیں تو جاہ بے جاہ اپوزیشن کا تذکرہ کرنے سے زیادہ بہتر ہے کہ توجہ ان اعلانات پر دیں جو وعدے انتخابی منشور میں کئے گئے یا اقتدار میں آنے کے بعد اعلان ہوئے۔پونچھ ہمیشہ سے اپوزیشن کا مرکز رہا۔ وہ مکمل طور پر فتح ہو چکا۔ سردار قمرالزماں خان اور سردار عتیق احمد خان کو تو اسی دن چپ لگ گئی تھی جب ہاڑی گہل سے ویڈیو ریلیز ہوئی تھی کہ جولی چیڑ کے نسرواز اور باغ کے ٹھیکیدار کے گٹھ جوڑ کو دیکھا جائے گا۔ جولی چیڑ کے نسرواز کا معلوم نہیں کہاں غائب ہیں، البتہ باغ کے ٹھیکیدار نے مبینہ طور پر عقل مندی یہ کی کہ جیتنے کے لیے دوبارہ انتخابات میں بھی زیادہ زور لگایا نہ دل چسپی لی۔ لینا بھی نہیں چاہئیے تھی۔ کشمیر کے ایک حصے میں مرغی چور کے ملزم کی ضمانت ہوتی ہے بکری چوری میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ رہی بات سردار محمد یعقوب خان کی تو اس کی آستین سے اتنے لوگ نکل چکے کہ کسی دوسرے کو محنت کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ ان کی صاحبزادی فرزانہ یعقوب بہت باصلاحیت اور مدبر سیاست دان بن چکی جنہیں کشمیر اور کشمیریوں کے مسائل پر گہرہ ادراک ہے لیکن خاتون کو ووٹ دیتے جبالوں کی مردانگی متاثر ہوتی ہے۔۔ البتہ سردار یعقوب خان کے مقابلے کے لیے ایک نوجوان کو تیار کیا جا رہا بلکہ تیار ہو چکا۔ ڈاکٹر عرفان اشرف خان سے میرا ذاتی تعارف تو نہیں لیکن آزاد کشمیر کے عام انتخابات میں نمایاں ہونے والے سیاسی کارکنوں میں وہ سرفہرست ہیں۔ جنہوں نے روایتی سیاسی معاشرے میں نو وارد سیاسی کارکن ہونے کے باوجود بہتر پوزیشن حاصل کی۔ ان کے مد مقابل ارپ پتی حاجی سردار محمد رشید خان، آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم سردار محمد یعقوب خان اور پی ٹی آئی سمیت کئی امیدوار تھے۔ عرفان اشرف خان نے اس ہجوم میں دوسری پوزیشن حاصل کر کے آئندہ کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی کہ سرمایہ اور سیاسی اثر رسوخ اپنی جگہ سیاست میں کچھ اور عناصر کی بھی اہمت ہے۔۔ نوجوان سیاسی کارکن عرفان اشرف خان انتہائی متحرک ہیں اور ہر شعبہ پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔۔ اسی بنیاد پر حکومت آزاد کشمیر نے انہیں اپنے امیدوار کے مد مقابل انتخابات لڑنے اور اس کو ناکام کرانے کے باوجود کلچر اکیڈیمی کا ڈائریکٹر جنرل تعینات کیا ہے۔۔ یہ معلوم نہیں کہ کلچر کے فروغ میں ان کی دلچسپی کتنی ہے البتہ حلقے کے عوام کے ساتھ ان کی دلچسپی روز بہ روز بڑھ رہی ہے جب کے ان کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ ان کے قبضہ میں موکل ہیں یا وہ موکلوں کے قبضہ میں ہے لیکن کچھ معاملہ ضرور ہے۔میرے اور عرفان اشرف خان کے مشترکہ دوست ڈاکٹر غلام حسین خان کی پیش گوئی تو یہ تھی کہ وہ اسی مرتبہ اسمبلی میں ہیں لیکن دروازے تک پہنچ گئے۔ اب وہ بھی دل و جان سے وزیراعظم کے ساتھ کھڑے ہیں۔۔ اس صورت حال میں وزیر اعظم نیازی صاحب کو اپوزیشن کی فکر کئے بغیر کام پر توجہ دینا چاہیے۔
پانچ سو ارب روپے کے ترقیاتی پیکیچ کی بھی دور، دور تک خبر نہیں وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے لیے تین ماہ کا وعدہ تھا، ابھی بھی میں پرانے موقف پر قائم ہوں کہ عبدالقیوم خان نیازی صاحب بھی راجہ فاروق حیدر خان کی طرح راہ فرار اختیار کرنے کا بہانہ تلاش کریں گے کیوں کہ بلدیاتی انتخابات ہمارے سیاست دانوں کو بلکل نہیں بہاتے۔ اگر وہ اس میں مخلص بھی ہوں تو ان کی کابینہ ان کو ملتوی کرانے میں آخری دن تک کوشش جاری رکھے گی۔ اپوزیشن اس میں پوائنٹ سکورنگ کیوں کرے گی۔ وہ اتنی سی بات تو سمجھتی ہے کہ چور تو بھاگ گیا لانگھوٹھ کو کیوں چھوڑیں، کوئی یونین کونسل، کوئی یونین کمیٹی کوئی ٹاون ڈسٹرکٹ کچھ تو ہاتھ لگے گا جہاں بہتی گنگا میں سب کے ہاتھ دہلیں گے۔۔ وزیراعظم صاحب بس آپ بلدیاتی انتخابات کرا لیجئے اپوزیشن کی فکر مت کریں نہ اس کی پوائنٹ سکورنگ کی۔