عورت کی وراثت اور اسلام(آخری قسط)

مغرب کا خاص طور پر یہ نقطہ نظر ہے کہ انسانی زندگی دراصل انسان کی معاشی حالت ہی کا دوسرا نام ہے۔ اس لیے ان کے نظریے کی رو سے جب تک عورت کو مالکانہ حقوق حاصل نہیں ہوئے تھے اور وہ اپنی جائیداد اور ملکیت میں آزادانہ تصرف کی مجاز نہیں تھی ،تو وہ قطعا آزاد حیثیت کی مالک نہیں تھی ۔اس کوآزاد انسانی حیثیت اس وقت حاصل ہوئی جب وہ معاشی لحاظ سے آزاد ہوئی اور اس قابل ہوئی کہ اپنی ملکیت میں کسی مرد کی مداخلت کے بغیر براہِ راست پوری آزادی سے تصرف کرسکے۔
اسلام سے قبل عرب معاشرے میں عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں بہت کم تر حیثیت حاصل تھی، یہاں تک کہ اگر مرد قصور وار ہوتا اور عورت اس کے ظلم کا نشانہ بنتی، تو قصاص واجب نہیں ہو تا تھا، مگر اسلام نے یہ امتیاز ختم کر دیا،اور جان و مال اور عزت کے حوالے سے جرائم پر کا رروائی مرد اور عورت کے لیے یکساں کر دی بلکہ بعض معاملات میں عورتوں کے حقوق مردوں سے بھی بڑھ کر ہیں۔
چنانچہ مال اور جائیداد کے معاملات میں عورت کی مکمل خود مختار حیثیت اور انفرادی تشخص بالکل واضح ہے۔اسلامی قانون کی رو سے عورت کواپنے مال و جائیداد پر مکمل تصرف حاصل ہے۔ اگر وہ بلوغت کی عمر کو پہنچ چکی ہے تو اسے اپنی جائیداد اپنی مر ضی سے خرید و فروخت کا مکمل اختیار دیا گیا ہے، جس میں کسی مرد کی مداخلت ضروری نہیں ہے،چاہے وہ اس کا باپ ہو ،شوہر ،بیٹا ،بھائی یا کوئی اور ہو۔
اس معاملے کے پیش نظر اسلام کی نظر میں عورت اور مرد کی کوئی تخصیص نہیں ہے ۔کسی عورت کے شوہر یا باپ کے قر ضے کے عوض اس کی جائیداد کو چھوا بھی نہیں جا سکتا ۔اسی طرح مقروض عورت کے قرضوں کی ادائیگی اس کے مذکورہ رشتہ داروں پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ مرد کی طرح عورت کو بھی جائیداد رکھنے کی مکمل آزادی ہے، چاہے اسے ورثے میں ملے یا کہیں سے تحفہ ملے اور چاہے اس نے اپنی محنت سے مال کمایا ہو۔ وہ مکمل طور پر اس کی اپنی ملکیت ہے۔ وہ اس کو بیچنے یا کسی کو تحفہ میں دے دینے یا قانونی طور پر اسے خرچ کرنے میں خود مختار ہوتی ہے۔ یہ تمام حقوق عورت کو ہمیشہ کے لیے دے دئیے گئے ہیں۔
بعثت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل عرب میں عورتوں کو وراثت کا حق حاصل نہیں تھا ، نہ باپ کے ورثے سے کچھ اسے ملتا تھا اور نہ شوہر ہی سے۔ روایات کے مطابق ہجرت کے تین سال بعد مدینہ کے ایک رئیس اوس بن ثابت انتقال کر گئے اور پسماندگان میں ایک بیوہ اور چار نوعمر صاحبزادیوں کو چھوڑا۔مدنی رواج کے مطابق ورثا میں سے صرف بالغ مرد جو جنگ میں حصہ لینے کے قابل تھے، وراثت کے حق دار تھے۔یہاں تک کہ کمسن بیٹے کو متوفی باپ کی وراثت سے کچھ نہیں ملتا تھا۔چنا نچہ اوس کے چچا زاد بھائیوں نے پوری جائیداد قبضے میں لے لی، جب کہ اوس کی بیوی اور بیٹیاں راتوں رات امیر سے فقیر ہو گئیں۔اس مو قعے پر اللہ تعالی کی طرف سے قرآنی آیات نازل ہو ئیں اور وراثت کے اسلامی احکام آگئے اور یہی اسلامی قانون وراثت ہے جس پر آج تک عمل کیا جاتا ہے۔ (اسلام کیا ہے؟ ڈاکٹر محمد حمیداللہ مترجم ،سید خالد جاوید مشہدی ، ص)
اسلا می قانون کے مطا بق مردوں کی وراثت سے بیوی ،بیٹی ،ماں ،بہن اور دوسری رشتہ دار عورتوں کو حق دیا گیا ۔اسلام نے وراثت میں منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد میں بھی کوئی امتیاز نہیں رکھا، بلکہ حکم دیا ہے کہ وراثتی جائیداد کی ہر چیز قانونی وارثوں میں تقسیم کردی جائے۔ایسی وصیت کو بھی اسلام نے ناجا ئز قرار دیا ہے، جس میں مالک نے اپنی جائیداد اجنبیوں کو دے کر جائز وارثوں کو محروم کر دیا ہو ۔بلکہ قانونی ورثا کے لیے وصیت کی ضرورت ہی نہیں ،انھیں خود بخود وراثت کا حق حاصل ہوجاتا ہے۔ اس لیے کسی بھی وصیت کے ذریعے ورثا کے مقرر حصے میں ردوبدل نہیں کیا جاسکتا ۔
وصیت صرف ان رشتہ داروں کے حق میں کی جا سکتی ہے، جنھیں قانونی طریقے سے وراثت سے حصہ نہ مل سکتا ہو، اور پھر اس کی بھی اسلام نے حد مقرر کردی ہے کہ اس سے زیادہ کی وصیت نہیں کی جا سکتی اور یہ حد سا ری جائیداد کا ایک تہا ئی ہے ،باقی دو تہائی جائیداد بہر صورت وراثت ہے جو اس کے جا ئز حق دار وں میں تقسیم ہوگی۔ایک تہائی سے زیادہ جائیداد کی وصیت صرف اس صورت میں قابلِ عمل ہے، جب ورثہ متفقہ طور پر بلاجبرو اِکراہ اس پررضا مندی ظاہر کردیں ۔
چنانچہ وراثت کے معاملے میں حالات کے مطابق مختلف ورثا کے حصوں میں کمی زیادتی ہوجا تی ہے ۔مثلا: اکلوتی بیٹی یا ایک بیٹے کی موجودگی میں، صرف والدہ یا والد کی موجودگی میں، بچوں کے ساتھ یا بچوں کے بغیر ،اکلوتی بہن یا بھائی کی موجودگی میں، متوفی کا والد یا بچے ،ان تمام صورتوں میں ورثا کے حصے کی نوعیت الگ ہو جا تی ہے۔ لہذا، یہاں پر اس مضمون میں اس کی تفصیلات کی گنجایش نہیں،لیکن خواتین کے حصے کا تذکرہ بیان کر نا ضروری ہے جو کہ مو ضوعِ بحث ہے۔
متوفی کا اگر بچہ بھی ہوتو بیوی کو شوہر کی جائیداد سے آٹھواں حصہ ملتا ہے ،بچہ نہ ہونے کی صورت میں وہ چو تھے حصے کی حق دار ہوتی ہے ۔اکلوتی بیٹی کو متوفی باپ کی نصف جائیداد ملتی ہے اور اگر بیٹیاں زیادہ ہوں تو دو تہائی جائیداد ان میں برابر کے حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے ،یعنی اگر ان کا بھائی نہ ہوتو۔ لیکن اگر متوفی کا بیٹا بھی موجود ہو تو پھر بیٹی کو بیٹے کی نسبت نصف وراثت ملتی ہے۔ اگر متوفی کی والدہ زندہ ہو تو اسے بیٹے کے ورثے کا ایک تہائی ملتا ہے، جب کہ باپ ،بچے یا بھائی اور بیٹوں کی موجودگی کی صورت میں ماں چھٹے حصے کی حق دار ہوتی ہے۔متوفی کا وارث بیٹا موجود ہو تو بہن کو حصہ نہیں ملتا ،البتہ بیٹا نہ ہو تو بہن نصف ترکے کی وارث ہو تی ہے، اور دو یا زیادہ بہنوں کی صورت میں دوتہائی تر کہ ان میں برابر تقسیم ہوتا ہے ۔اکلوتی بیٹی کے ساتھ بہن کو چھٹا حصہ اور اگر ایک بھائی بھی ہو تو اسے بھائی سے نصف تر کہ ملے گا ۔اسی طرح حقیقی بہنوں ،ایک باپ اور والدہ مختلف ہونے کی صورت میں بہنوں کے حصے مختلف ہوں گے۔(النسا : )
جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کہ عورت اپنی جائیداد اور ملکیت کی خود مختا ر ہوتی ہے۔اس میں باپ، شوہر یا کسی اور رشتہ دار کا کوئی حق نہیں ہوتا۔اس کے علاوہ عورت نان و نفقہ کی الگ سے حق دار ہوتی ہے، یعنی شادی سے پہلے عورت کا خرچ اس کے باپ اور شادی کے بعد شوہر کی ذمہ داری ہوتی ہے، اور عدالت باپ ،شوہر یا بیٹے کوعورت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے حکم دیتی ہے۔ اس کے بعد عورت شادی کے موقعے پر شوہر سے مہر کی صورت میں بھی رقم کی حق دار ہوتی ہے، جوکہ اسلام سے پہلے عورت کے والد کو ملتا تھا ،مگر اسلام نے اسے عورت کے لیے لازمی قرار دیا۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ مہر اور جہیز میں فرق ہے۔مہر شادی کے لیے ضروری ہے، لیکن جہیز ضروری نہیں۔
عورت کی مالی ذمہ داریاں مرد کی نسبت کم ہیں کیونکہ اس کے اخراجات مرد کے ذمے ہیں۔ اس لحاظ سے مرد کی مالی ذمہ داریاں عورت کی نسبت زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ ترکے میں سے زیادہ حصے کا حق دار ہوتا ہے ،جب کہ عورت کی تمام ضروریات کی ذمہ داری اس کے کفیل کے اوپر ہے، اس کے با وجود بھی اسلام نے اسے مزید نوازنے کے لیے وراثت میں بھی حصہ دار بنایا ہے۔