نقلی بال نہ لگوائیے، اپنی کھال اور خون سے اصلی بال اگائیے
کیلیفورنیا: امریکی اسٹارٹ اپ کمپنی ’ڈی نووو‘ نے کھال، خون اور چکنائی کے خلیوں سے اصلی بال اُگانے والی جدید ’ڈائریکٹ ری پروگرامنگ ٹیکنالوجی‘ وضع کرلی ہے جس سے گنج پن کا علاج بھی ’بہت جلد‘ شروع کردیا جائے گا۔
اس ٹیکنالوجی کے تحت کسی شخص کی کھال، خون یا چکنائی کے خلیے لے کر انہیں کچھ خاص مادّوں (پروپرائٹری ری پروگرامنگ فیکٹرز) کے ذریعے ’ری پروگرام‘ کیا جاتا ہے اور وہ بال اُگانے والے خلیوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔
پھر ان خلیوں ساق کو ’بیجوں کی طرح‘ اسی شخص کی کھوپڑی میں پیوند کردیا جاتا ہے کہ جس سے کھال، خون یا چکنائی کے خلیے حاصل کیے گئے تھے۔
ڈی نووو کمپنی کا دعوی ہے کہ اس طرح ایک سے تین ماہ میں سر پر اُگنے والے بال نمایاں ہونے لگیں گے اور یوں گنج پن بتدریج ختم ہوجائے گا۔
اس حوالے سے ایک پریس ریلیز میں ’ڈی نووو‘ نے بتایا ہے کہ اس کی ٹیکنالوجی نے اہم سنگِ میل عبور کرلیا ہے جس میں ایک گنجے چوہے کے جسم پر صرف تین ہفتے میں نئے بال کامیابی سے اگا لیے گئے جو اگلے سات ماہ تک اگتے رہے۔
گنجے چوہوں کی یہ نسل جینیاتی انجینئرنگ سے تیار کی گئی تھی۔
اگرچہ نئے قدرتی بال اگانے کی مختلف ٹیکنالوجیز پہلے ہی سے موجود ہیں لیکن وہ سب خاصی پیچیدہ ہیں جن کے تحت خلیوں کی ’ری پروگرامنگ‘ کرکے انہیں بال اُگانے والے خلیاتِ ساق میں تبدیل کرنے میں بہت وقت لگ جاتا ہے جبکہ متعدد بار ناکامی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
’ڈی نووو‘ کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیکنالوجی کھال، خون یا چکنائی کے خلیوں کو براہِ راست بال اُگانے والے نئے خلیات میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ بہت تیزرفتار ہے جس کا راز ان کے اپنے تیار کردہ ’پروپرائٹری ری جنریشن فیکٹرز‘ میں پوشیدہ ہے۔
یہ ’فیکٹرز‘ کیا ہیں اور کیسے کام کرتے ہیں؟ اس بارے میں ’ڈی نووو‘ نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے البتہ اتنا ضرور بتایا ہے کہ ان منفرد مادّوں کا پیٹنٹ حاصل کرنے کےلیے درخواست دی جاچکی ہے۔
اپنی تمام مبینہ خوبیوں کے باوجود، اصلی بال اُگانے والی اس نئی ٹیکنالوجی کو ادویہ اور علاج معالجے کے طریقوں کی منظوری دینے والے مرکزی امریکی ادارے ’فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن‘ (ایف ڈی اے) سے اجازت درکار ہوگی، جس میں خاصا وقت بھی لگ سکتا ہے۔
’ڈی نووو‘ نے وائی کمبی نیٹر، فیلیسس وینچرز اور دوسرے اداروں سے 27 لاکھ ڈالر کی بنیادی فنڈنگ بھی حاصل کرلی ہے تاکہ اس کام کو تیزی سے آگے بڑھایا جاسکے۔
البتہ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ ’ڈائریکٹ ری پروگرامنگ‘ ٹیکنالوجی انسانوں کا گنجا پن دور کرنے میں بھی اتنی ہی کامیاب ہوتی ہے یا نہیں کہ جتنی یہ چوہوں میں کامیاب رہی ہے۔