
ذرا بچ کے ۔۔۔۔۔۔۔!
باعث افتخار انجنیئر افتخار چودھری
جدہ میں میرے ایک دوست ہیں جن کا نام ملک محی الدین ہے ان کا مجھ سے بڑا گلہ رہا کہ یار تم ہر موضوع پر لکھتے ہو مگر جو کام تمہیں آتا ہے اور جو کرتے ہو اس پر کیوں نہیں لکھتے
واقعی میں نے بڑی سستی کی
پچھلے دنوں میں نے آٹو موبائل فیلڈ میں کام کرنے والے ایک ریسیپشنسٹ کی زندگی کے بارے میں کالم لکھا جسے غیر معمولی سراہا گیا۔لوگوں نے پہلی بار فون کر کے بتایا کہ آپ نے ہماری زندگی بدل دی۔آج دل نے چاہا کہ آپ کو لائف ٹائم کسٹمر کے بارے میں بتائوں۔کہ آپ کسی کا دل کیسے جیت سکتے ہیں ؟زندگی میں بڑے واقعات گزرے ہیں ضروری نہیں کہ میں دنیا کا ایمان دار ترین فرد ہوں لیکن چند ایسے واقعات زندگی میں گزرے ہیں کہ اللہ نے ہاتھ پکڑا اور کامیابیاں ملیں۔میں نے 1975 میں رانا موٹرز سے معمولی ملازمت شروع کی کہتے ہوئے حیرانگی ہوتی ہے کہ 150 روپے مہینہ پر اپرینٹس شپ کی اور 2014 میں تقریبا سولہ لاکھ ماہانہ کی نوکری چھوڑی۔میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ میں دنیا کا کوئی کامیاب ترین فرد نہیں ہوں مگر ایک معمولی تعلیم کے ساتھ اس قدر کامیابیاں ملیں کہ اللہ پاک نے بہت کچھ دیا۔کاروبار میں ،،مستقل گاہک،، بڑا اہم ہوتا ہے۔آپ نے دیکھا ہو گا کہ لوگ بھاگتے رہتے ہیں کبھی ایک جگہ کبھی دوسری جگہ لیکن کئی کسٹمر ایسے ہوتے ہیں جو صرف ایک ہی جگہ کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ائیے اپنی زندگی کے خوبصورت دنوں کو یاد کرتے ہیں۔پاکستان کے ایک وزیر ہوا کرتے تھے ان کا نام خاقان عباسی تھا ان کی ایک کمپنی اے ڈی اے تھی مرحوم سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے والد تھے۔ان سعودی عرب میں بڑا کاروبار تھا ایک گاڑیوں کی ڈیلر شپ بھی تھی جنرل موٹرز اور بی ایم ڈبلیو کی ایجینسی مدینہ منورہ میں شارع سلطانہ پر تھی جہاں آج کل کوئی سوپر مارکیٹ ہے مفروشات العامر کے ساتھ گاڑیوں کی اس ایجینسی میں مجھے کام کرنے کا موقع ملا مجھے جدہ سے تبدیل کر کے یہاں بھیجا گیا۔کہ آپ مدینہ منورہ کے سروس سینٹر کو سنبھالیں یہ 1985 کی بات ہے۔یہ چھوٹا سا سینٹر تھا کوئی پندرہ بیس لوگ تھے میری عمر بھی کوئی تیس سال کے قریب تھی۔اس چھوٹے سے سیٹ اپ میں مینجر کو کسٹمر سے معاملات کرنے کی زمہ داری بھی نبھا پڑتی تھی اس کمپنی کے جنرل مینجر بریگیڈیئر تاج عباسی تھے۔سٹاف میں بھی کافی عباسی برادری کے لوگ تھے جن میں سفیر عباسی عنصر عباسی منجھے یاد ہیں۔سیالکوٹ کے اکرم مقررہ مقصود مانسہرہ کے نذیر کراچی کے حلیم کوئی تین چار ترک دو ایک پشاور سے غرض لوگوں کی معقول تعداد تھی۔بریگیڈجئر تاج بڑی منفرد شخصیت تھے۔فوجیوں کا اپنا ایک سٹائیل ہوتا ہے ہم کوشش کریں گے کہ ان سے جڑی یادیں کسی اور موقع پر چھیڑیں گے آج میرا مقصد صرف اس بات کو بتانے کا ہے کہ لوگ اپنے کاروبار کیوں تباہ کر لیتے ہیں۔اور ،،پکے گاہک،، کیوں نہیں بناتے۔آج مارکیٹینگ ایک سائینس بن چکی ہے کمپنیاں اس پر بہت خرچ کرتی ہیں کبھی آہ نے سوچا ہے کہ سالہا سال سے پیپسی اور کوک کیوں مشہورہ پر خرچ کرتی ہیں۔لیہن ایک اہم چیز دیانت داری ہے جو آپ کو دیرپا رزلٹ دیتی ہے۔جس بات کی جانب میں آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں وہ ہے آپ کی ،،ساکھ،، یقین کیجئے اس کو بنانے کے لیے بڑا وقت لگتا ہے لیکن یہ ایک دفع بن جائے تو آپ کو کبھی کاروبار میں نقصان نہیں ہوتا۔
ہماری ورکشاپ حضرت عثمان کے اس کنویں کے قریب تھی جو انہوں نے مدینہ پہنچ کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا تھا۔ایک بار ایسے ہوا کہ ایک گاڑی تبوک روڈ پر واقعہ شہر العلائ سے ٹرک پر لدھی ہوئی ہمارے پاس آئی۔میں ٹیکنیکلی اتنا مضبوط نہ تھا اپنی مدد کے لیے نذیر بھائی جو مانسہرہ کے تھے ان کی مدد لیتا اور پھر گاہک سے بات کر کے کام چلا لیا کرتا تھا۔العلائ سے آئی جی ایم سی سوبربان کو چیک کروایا نذیر بھائی نے کہا صاحب اس کا فور بائی فور کا لیور نیوٹرل ہر ہے اس کی وجہ سے یہ گاڑی نہیں چلتی۔
آپ ایسا کریں کہ اس بوڑھے بدو کو کہیں گاڑی چھوڑ جائے اور دو روز بعد لے جائے۔میں نے نذیر بھائی سے کہا آپ ایسا کریں بابا جی کو ساتھ کیں انہیں سمجھائیں کے لیور کا صیحیح استعمال کیا ہے اور اسے کیسے استعمال کرنا ہے۔میں بھی ان کے ساتھ ہو لیا بابا جی بہت خوش ہوئے۔مزدوری کا پوچھا جس پر میں نے کہا نہیں اس کی کوئی مزدوری نہیں ہے۔یقین کریں یہ بھی احساس تھا کہ مدینہ منورہ ہے اور یہاں رہ کر حلال نہ کمایا تو کس جگہ کمائیں گے۔لیہن اصل چیز یہ تھی گاہک کے ساتھ ایمانداری کا برتاؤ کریں
العلائ کا بدو بابا ہم سے بڑا خوش گیا
میں کوئی ایک سال وہاں رہا اس دوران بابا جی ہمیں وہاں سے سبزیاں پھل بھیجتے رہے۔العلائ زراعتی قصبہ ہے بابا جی وہاں کے بڑے زمیندار تھے۔اس ایک سال کے دوران وہ نہ صرف ہمارے مستقل گاہک بنے بلکہ وہاں سے بہت سے لوگوں کو ہمارے پاس بھیجتے رہے۔
سروے کے مطابق ایک ناخوش گاہک دس لوگوں کو آپ کی برائی کرتا ہے جبکہ مطمئن کسٹمر ایک کو بتاتا ہے لیکن میرا خیال ہے مطمئن لوگ بہت سے لوگوں کو بتاتے ہیں۔پکے گاہک کون ہوتے ہیں۔مجھے پھل بیچنے والا وہ شخص زیادہ پسند ہے جو مجھے یہ کہہ کر پھل نہیں بیچتا کہ وہ معیاری نہیں ہے۔
میں یہاں اسلام آباد میں گاڑیوں کی ایک کمپنی میں کام کرتا رہا ہوں۔میں آپ کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں لوگ اکثر اوقات دانت نکالتے رہتے ہیں اور آپ سمجھتے ہیں کہ یہ آپ کا دوست ہے اور آپ دوست سمجھ کر اس پر اعتبار کرتے ہیں لیکن عملی طور پر ایسا ہوتا نہیں ہے۔ایک کسٹمر جو کسی سفیر کا بیٹا تھا وہ مالک کے پاس آیا اور کہا کہ گاڑی کا گیئر بکس خراب ہے چیک کریں۔جب اس کو چیک کیا گیا تو ایک چھوٹا سا پرزہ خراب تھا اس بے چارے کو کہا گیا کہ ہم نے آپ کا گیئر بکس سلطان کے کھو سے لے کر بدلا ہے اسے پچاس ہزار کا ٹیکہ لگا دیا۔
دوستو خدا را ہوشیار رہیں اگر اس قسم کی صورت حال سے گزریں تو ٹیکنیکل شخص کی مدد حاصل کریں۔گاڑی کا جو ایسٹیمیٹ ملے اس کی مکمل چھان بین کریں۔سادہ سی بات ہے اگر آپ اس کیس کی چھان بین کرتے تو صاف کہتے کہ میرا پرانا گیئر بکس کہاں ہے ؟ہو سکتا ہے کہے کہ پرانا دے کر یہ کیا ہے تو مکمل تحقیق پر جانے سے آپ ایک بڑے نقصان سے بچ جائیں گے
میں نے دیکھا ہے کہ وہی گاہک کامیاب ہوتے ہیں جو مکمل جرح کرتے ہیں۔پرانے پارٹس واپس لیتے ہیں۔لوگوں کو اللہ کا ڈر نہیں اپنی گاڑی کا آئل بھی نہیں بدلیں گے اور آپ کو چونہ لگا دیں گے۔
ڈرائیورز پر بھروسہ نہ کریں۔اپ کی گاڑی ہے آپ خود وقت نکالیں۔ورکشاپ والوں کی خواہش ہوتی ہے کہ مالکان گاڑی کے نزدیک نہ آئیں مگر یہ آپ کا حق ہے کہ جو چیز بدلی جا رہی ہے وہ آپ خود اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔
ایک اور سب سے بڑا فراڈ یہ ہے کہ کمپنیوں کی پرائس لسٹ جو جینوئن پارٹس کی ہے وہ مارکیٹ میں موجود پارٹس بہت مہنگی ہے۔ایک گاڑی کے اوریجنل بریک پیڈز نو سے دس ہزار کے ہیں جبکہ اچھے ریپلیسمنٹ پارٹس دو ہزار کے مل جاتے ہیں ویسے اوریجیل بھی مارکیٹ میں بیس سے تیس فی صد سستے مل جاتے ہیں۔
ڈیلر شپ سے کام ضرور کروائیے لیکن یاد رکھیں اگر اچھا کاریگر صدر یا کسی اور جگہ مل جائے تو بہتر ہے۔لیہن ،،اچھا نال نصیباں دے،،
وہاں بھی کاہے بیٹھے ہوتے ہیں۔
(باقی صفحہ 7بقیہ نمبر 1)
اس دور میں اچھا سروس سینٹر ملنا بہت مشکل ہے۔بد قسمتی سے ہمارے ہاں کوئی کنٹرول نہیں ہے پوری دنیا میں پرائس لسٹ کے مطابق کام ہوتا ہے پر ہاور ریٹ ہوتا ہے لیکن افسوس ہمارے ہاں یہ نہیں ہوتا۔بھائو تائو ضرور کیجئے۔
میں نے لائیو ٹائم کسٹمر کی بھی بات کی ہے اور اس مارکیٹ میں بیٹھے ان لوگوں کی بھی جن کا ایمان ہے کہ کو ہاتھ میں آئے اسے قابو کر لو۔پاکستان کی آٹو موبائل مارکیٹ آخر الذکر لوگوں سے بھری پڑی ہے۔
پرائس لسٹ کے بارے میں بات کرو تو کہیں گے اس میں کوئی کسر نہیں ہوتی۔آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ہر کام کے بارے میں لکھا ہوتا ہے یہ کتنے منٹس کا کام ہے کتنے گھنٹے لگے گیں۔اور پھر طے ہوتا ہے کہ پر ہاور ریٹ کیا ہو گا۔لیہن پاکستانی مارکیٹ ابھی کئی سال پیچھے ہے۔